خصوصاً وحدۃ الوجود کے دعوے میں تو زبان کو لگام ہی نہیں کبھی خدا کو بندہ بنا دیا، کہیں بندے کو خدا ٹھیرا دیا۔ رباعی
اے بردہ گمان کہ صاحب تحقیقی
و اندر صفت صدق و یقین صدیقی
ہر مرتبہ از وجود حکمے دارد
گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی
اس مسئلہ کی جو خاص غرض تھی کہ غیر اﷲ کو دل سے نکال دیا جاوے اس کی تو ہوا بھی نہیں لگتی، زبانی جمع خرچ سے کیا ہوتا ہے ؎
از ساخت دل غبار کثرت رفتن
خوشتر کہ بہر زہ درد وحدت سفتن
مغرور سخن مشو کہ توحید خدا
واحد دیدن بود نہ واحد گفتن
اور شکم کی بے احتیاطی یہ کہ حلال وحرام کی کچھ پروا نہیں کرتے سودخوار، زنِ بازاری جو کوئی ہو سب کی دعوت نذرانہ قبول کر لیتے ہیں۔ بزرگوں نے صاف فرمادیا ہے کہ بدون اکل حلال انوارِ الٰہی نصیب نہیں ہوتے۔ شاہ کرمانی فرماتے ہیں:
من غض بصرہ عن المحارم وامسک نفسہ عن الشہوات وعمر باطنہ بدوام المراقبۃ وظاہرہ باتباع السنۃ وعود نفسہ اکل الحلال لم تخطیٔ فراستہ (قشیریہ)
( جس نے جھکا لی اپنی آنکھ نادیدنی چیزوں سے اور روکا اپنے نفس کو شہوات و لذات سے اور آباد کیا اپنے باطن کو دوام مراقبے سے اور ظاہر اپنے کو اتباع سنت سے اور خوگر کیا اپنے نفس کو اکل حلال کا اس کی فراست کبھی خطا نہ کرے گی)
فصل: ایک غلطی یہ کہ بعض کا اعتقاد ہے کہ فقیری میں کوئی ایسا درجہ ہے کہ وہاں پہنچ کر احکام شرعی