نسبت خواص۔ مکرے کہ بہ نسبت عوام است ارداف نعمت ست باوجود تقصیر در خدمت۔ و مکرے کہ بہ نسبت خواص است ابقائے حال است باوجود ترک ادب۔(جواہرغیبی)
حضرت شیخ قطب العالم عبد القدوس گنگوہی فرماتے ہیں:
’’در کار مستقیم باش ودر شرع مستدیم ہر چند استقامت شرع است و درکار است انوار انوار ست واسرار اسرار۔ ومی آرند مریدے نورے می دید پیش پیر عرض داشت کہ من چنیں نور می بینم پیر دانائے روزگار فرمود برو یکمشت کاہ از حق غیرے بے اذن بگیر۔ مرید ہم چنان کرد، مر نور در پردہ شد، مرید پیش ازین حال عرض داشت پیر بحق رسیدہ فرمود خاطر جمع دار کہ آن نور حق ست کہ اگر بارتکاب خلاف شرع آں نور مکشوف بودے نور نبودے بلکہ ظلمت بودے، حق نبودے باطل بودے‘‘۔
ہر چہ درو داعیۂ شرع نیست
وسوسۂ دیو بود بے نزاع (التماس)
فصل: ایک غلطی یہ ہے کہ احادیث کے بیان کرنے میں نہایت بے احتیاطی ہوتی ہے۔ حدیث کی تحقیق علمائے حدیث سے کرنا چاہئے۔ یہ کسی طرح درست نہیں کہ کسی اردو فارسی کی کتاب یا کسی عربی کی غیر معتبر کتاب میں حدیث کا نام دیکھ لیا اور اس سے استدلال شروع کردیا۔ بہت سی عجیب وغریب حدیثیں جن کا کہیں پتہ نہیں مشہور ہیں۔ جیسے انا عرب بلاعین۔ اور مثل اس کے جن کے نہ الفاظ کا پتہ نہ معانی کا نشان۔ حدیث شریف میں اس مقدمہ میں سخت وعید آئی ہے:
من کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار
اسی قبیل سے یہ دعویٰ کرنا کہ حضور سرور عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کو کئی ہزار کلمات تصوف کے جو شب معراج میں آپ لائے تھے سب سے علیحدہ تلقین فرمائے، اور کوئی اس کے قابل نہ تھا۔ اس دعوے میں کتنے جھوٹ جمع ہوئے ہیں۔ اوّل یہ کہ آپ کو کئی ہزار کلمات تصوف کے معراج میں عطا ہوئے۔ مدعی کو اس کی اطلاع کس طرح ہوئی؟ وہاں تو اس قدر ابہام ہے کہ فرشتہ تک کو اطلاع نہیں ہوئی۔ یہ کہاں کھڑے سنتے تھے؟ بھلا ایسے مقام کا راز کس کو معلوم ہوسکتا ہے
--------------
۱؎ اور اسی فہم کی بدولت حقائق و اسرار قرآنی آپ پر مکشوف ہوتے تھے۔