اول علم شریعت پھرعمل شریعت کی سخت ضرورت ہے۔ اور بدون اس کے آگے راہ نہیں کھلتی۔ اور کبھی کوئی شخص رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مخالفت کر کے اور طریق بدعت کو اختیار کر کے ولی نہیں ہوسکتا۔ جب بدعت قاطع طریق ہے تو کفر وشرک کا تو کیا پوچھنا ہے۔ آج کل لوگوں نے علم وعمل کے اڑانے کو دو لفظ یاد کئے ہیں: علم کی نسبت حجاب اکبر، اور عمل کی نسبت دعویٔ آزادی۔
صاحبو! حجاب اکبر کے اگر یہ معنی ہوں تو جتنے بزرگوں کے نام لکھے گئے ہیں وہ جھوٹے بلکہ محجوب ٹھہرتے ہیں۔ یہ ایک اصطلاحی لفظ ہے حقائق کے قاعدے سے اس کے بہت باریک معنی ہیں۔ مگر موٹے سے معنی یہ سمجھو کہ حجاب اکبر اس پردے کو کہتے ہیں جو بادشاہ کے قریب پڑا رہتا ہے کہ وہاں پہنچ کر بادشاہ کا بہت ہی قرب ہوجاتا ہے۔ تو اس میں علم کی مدح ہے، یعنی جب علم حاصل کر لیا تو جتنے حجاب تھے سب اٹھ گئے یہاں تک کہ حجاب اکبر تک پہنچ گیا، اب ایک تجلی سے حیرت کا غلبہ ہو یہ حجاب بھی اٹھ جاوے واصل ہوجاوے۔ اور جس نے سرے ہی سے علم حاصل نہیں کیا خواہ تحصیل سے یا صحبت علماء سے وہ تو ابھی بہت پردوں کے پیچھے اور بہت دوررہا۔
رہا دعویٔ آزادی! تو آزادی کے معنی باب اصطلاحات میں گزر چکے ہیں کہ قید شہوت وغفلت سے آزاد ہونا ہے نہ کہ احکام محبوب حقیقی سے ؎
گر تو خواہی حری و دل زندگی
بندگی کن بندگی کن بندگی
زندگی مقصود بہر بندگی ست
زندگی بے بندگی شرمندگی ست
جز خضوع وبندگی واضطرار
اندریں حضرت ندارد اعتبار
ہر کہ اندر عشق یابد زندگی
کفر باشد پیش او جز بندگی
ذوق باید تا دہد طاعات بر
مغز باید تا دہد دانہ شجر
اگر یہ شبہ ہے کہ علمِ حقیقت اگر علم شریعت کے خلاف نہیں ہے تو بزرگوں نے اسرار کو کیوں پوشیدہ کیا ہے؟ شریعت تو اظہار کے قابل ہے ۔ تو اس کا حل اچھی طرح سمجھ لو کہ ہمارا یہ دعویٰ نہیں کہ علم شریعت ہی کو علم حقیقت کہتے ہیں، بلکہ دعویٰ یہ ہے کہ علم حقیقت علم شریعت کے خلاف نہیں ہے۔ یعنی