یہ نہیں ہے کہ شریعت نے ایک چیز کو حرام یا کفر کہا ہے حقیقت میں وہ حلال اور ایمان ہوجاوے۔ مثلاً دیوانی کا قانون اور ہے اور فوجداری کا اور، مگر یہ نہیں کہ جو چیز قانون اوّل میں جائز ہو وہ قانون دوم میں ناجائز ہو یا بالعکس۔ ہاں البتہ ہر ایک کے مضامین جداگانہ ضرورہیں، سو یوں توشریعت میں بھی مضامین مختلفہ ہیں اور خود حقیقت میں بھی۔ مگر وہ مضامین شریعت کے مضامین کی نفی نہیں کرتے۔ پوشیدہ کرنے سے جو شبہ ہوتا تھا وہ تو رفع ہوگیا۔ اب یہ بات سمجھ لینے کی ہے کہ پوشیدہ رکھنے کی کیا وجہ ہے؟ تو سمجھنا چاہئے کہ قابل اخفاء کے تین امر ہوتے ہیں: ایک اسرار، سو امام غزالی نے اس کی کئی وجوہات فرمائی ہیں ،جن کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ مضامین خلاف شرع تو نہیں ہوتے مگر دقیق زیادہ ہوتے ہیں جو عوام کے فہم میں نہیں آسکتے اور ان کو مضر ہوتے ہیں۔ دوسرے تعلیم سلوک کے طریقے! اس میں اخفا کی وجہ یہ ہے کہ اعلان میں اس کی بے قدری ، اور دوسرے طالب کی ہوسناکی کا احتمال ہے۔ تیسرے ثمرات مجاہدہ ومکاشفات وغیرہ! اس کا اخفاء بوجہ احتمال ریا ودعوے کے ہے۔ غرض! کسی امر کا اخفا اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ مخالف شرع ہے اور اگرفرضاً ایسا ہو تو وہ قابل رد وانکار کے ہے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ جس کو دولت وصول میسر ہوئی ہے علم شریعت واتباع سنت سے ہوئی ہے۔ اور اگر کسی بزرگ کا کوئی قول وفعل خلاف سنت منقول ہے یا تو سکر اور غلبۂ حال میں وہ امر صادر ہوا یا وہ حکایات غلط منقول ہیں یا ان سے کسی باریک مسئلہ میں جہاں دلیل شرعی خفی ودقیق تھی خطائے اجتہادی ہوگئی جس میں وہ شرعاً معذور ہے اور خدائے تعالیٰ سے ان کو بُعد نہیں ہوا۱؎۔ یہاں تو کھلم کھلا مخالفت بلکہ اس کی نفی اور اس کے ساتھ استہزاء و تمسخر کیا جاتا ہے جس کے کفر ہونے میںکوئی شک وشبہ نہیں۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ خلاف شرع کوئی کام کرنا درست نہیں مثل طواف قبر وسجدئہ مشائخ وغیرہ ان کا ذکر باب مسائل میں آبھی چکا ہے ۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ شیخ کی اطاعت بھی جبھی تک ہے کہ وہ اﷲ ورسول کے خلاف نہ کہے ورنہ اس شیخ ہی کو سلام رخصت کرنا چاہئے۔ حضرت نوریؒ فرماتے ہیں:
----------------
۱؎ در ارشاد الطالبین فرمودہ علاوہ آنکہ آنچہ بدعت در بعضے اعمال آنہا راہ یافتہ بناء خطائے اجتہادی است ومجتہد مخطی معذور است ویک درجہ ثواب دارد، ومجتہد مصیب دو درجہ ثواب دارد واگر چنین باشد عافیت برفقہاء بلکہ بر تمام عالم تنگ می شود۔