کی تاریخ پیدائش تبدیل کرنے کی مہم کو سر کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ مرزا قادیانی کے بے بہا سن پیدائش تجویز کئے گئے۔ لیکن اندرونی اختلافات کی نذر ہوگئے۔ اگر ایک ۱۸۳۲ء تجویز کرنے پر مصر تھا تو دوسرا ۱۸۳۳ء ۔اگر تیسرا ۱۸۳۴ء کی تائید کررہاتھا تو چوتھا ۱۸۳۶ء کانظریہ قائم کئے ہوئے تھا۔
جن لوگوں نے قادیانی لٹریچر کا گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے۔ ان پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس نزاع کی اصل اورحقیقی وجہ صرف یہ تھی کہ اس رستہ میں اٹکنے والے روڑے خود مرزا قادیانی کی تصنیفات اوراس سلسلہ کے علماء کی تحریریں تھیں۔ جن کو رستہ سے ہٹانا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔مثلاً:
٭… ’’میری پیدائش ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں ہوئی۔‘‘
٭… ’’۱۸۵۷ء میں میں سولہ یا سترھویں برس میں تھا۔‘‘
٭… ’’میری عمر ۳۴،۳۵ برس کی ہوگی جب حضرت والد صاحب کا انتقال ہوا۔‘‘
٭… (والد صاحب کا انتقال ۱۸۷۴ء میں ہوا)
٭… ’’۱۰؍اگست ۱۹۰۲ء تک والد صاحب کے انتقال کو ۲۸ برس ہو چکے ہیں۔‘‘
٭… ’’حضرت مسیح موعود فرماتے تھے کہ جب سلطان احمد پیداہوا تو ہماری عمر صرف سولہ برس تھی۔‘‘
٭… ’’مرزاسلطان احمد کی پیدائش ۱۸۵۶ء کے قریب بنتی ہے۔‘‘
اب سب تحریروں کا سرے سے ہی انکار کرنا اور بہانہ سازی کر کے دوسرا راستہ اختیار کرنا عملاً ناممکن تھا۔ لیکن کیا کریں دوسروں کی بات نہیں ۔ خود مرزا قادیانی کی اولاد ہی ان حوالجات کا انکار کررہی ہے۔
آمدم برسر مطلب:مرزاقادیانی کی پیدائش تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ:
۱… ’’مرزا قادیانی کے والد غلام مرتضیٰ صاحب کی تاریخ وفات تبدیل کرنے کے بغیر چارہ نہ تھا۔‘‘
۲… ’’مرزا قادیانی کے بیٹے سلطان احمد کی تاریخ پیدائش تبدیل کرنی ضروری تھی۔‘‘
۳… ’’مرزا قادیانی کے بیٹے سلطان احمد کے بھائی فضل احمد اورسلطان احمد کی عمر میں صرف دو سال کافرق تھا۔ اس توازن کو قائم رکھنے کے لئے فضل احمد کی تاریخ پیدائش میں بھی تبدیلی ایک لازمی امرتھا۔‘‘