(زمر:۴۲)‘‘{اﷲ ہی جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اورجن کی موت کاوقت ابھی نہیں آیا ان کو ان کی نیند میں(قبض کرتا ہے)}اورنیز آیت:
’’وھوالذی یتوفکم باللیل (انعام:۶۰)‘‘ {اﷲ تم کو رات کے وقت قبض کر لیتا ہے۔} اورنیز شعر :
فلما توفاہ رسول الکری
{اور جب اس کو نیند کے ایلچی نے پورا پورا پکڑ لیا۔}
ان مثالوں میں ملک الموت اورموت ، توفی سے موت مراد لینے کے قرینے ہیں۔ اور ’’منام، لیل،کری‘‘اس سے نیند مراد لینے کے۔ اسی طرح آیت مذکورہ زیر بحث میںاگر توفی کے متصل موت کا ذکر ہے تو اس سے مراد موت ہو گی اور اگرنیند کا ذکر ہے تو پھر نیند مراد ہوگی۔ اگر رفع یعنی اوپراٹھانے کاذکر ہے تو اس سے مراد رفع ہوگی۔ یعنی اوپر کواٹھالینا۔پس چونکہ اس آیت توفی کے ساتھ سوائے رفع کے ذکر کے اورکچھ مذکور نہیں لہٰذا اس جگہ توفی سے سوائے رفع کے اور کچھ مراد نہیں ہوسکتی۔
مولانا نے اپنی طرف سے آیت مذکورہ بالا کی نہایت عمدہ توجیہ کی ہے۔ عربی دان طبقہ ضرور اس کی قدر کرے گا۔ قادیانی صاحبان اس ’’متوفیک‘‘کے معنی صرف یہ لیتے ہیں کہ’’میں تجھ کو موت دوں گا‘‘لیکن ان کے خیال میں کشمیر جانے کے بعد ان کی موت واقع ہوئی۔ حضرت ابن عباسؓ نے بھی متوفیک کے معنی ممیتک کے کئے ہیں۔ یعنی میں تجھے موت دینے والا ہوں۔ لیکن ان کے قول کے مطابق یہ موت نزول من السماء کے بعد واقع ہو گی۔ میری ذاتی رائے بھی یہی ہے کہ یہی اس کے معنی صحیح ہیں۔ لیکن اس کے سمجھنے میں تھوڑی سی غلطی ہوئی ہے اور وہ غلطی ترتیب الفاظ کے متعلق ہے۔ میں نے اپنے رسالے گلدستہ معانی میں بیان کیا ہے کہ قرآن میں ترتیب الفاظ کئی قسم کی ہے اورمختلف وجوہات پر مبنی ہوتی ہے(مثالیں وہاں دیکھ لی جائیں) یہاں بھی ترتیب الفاظ ہے اوروہ اس طرح ہے:
’’مطھرک من الذین کفرواورافعک الیّٰ ومتوفیک (آل عمران:۵۵)‘‘ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ارشاد ہوا کہ میں تم کو یہودیوں کی گرفت سے بچاؤں گا اور اپنی طرف اٹھا لوں گا اوراس کے بعد موت دوں گا۔ متوفیک اس لئے پہلے آیا کہ یہودیوں کا منشاء ان کے قتل یا سولی دینے کا تھا اور اﷲ تعالی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس سے بچانا تھا کہ وہ تجھ کو مارنے پر قادر نہ ہوںگے۔بلکہ میں خود موت دوں گا جب مناسب ہوگی۔