’’اگر کوئی شخص کہے کہ جب نبوت ختم ہوچکی تو اس امت میں نبی کس طرح ہوسکتا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدائے عزوجل نے اس بندہ(یعنی مرزاقادیانی)کا نام اس لئے نبی رکھا ہے کہ سیدنا محمدرسول اﷲ کی نبوت کا کمال، امت کے کمال کے ثبوت کے بغیر ہرگز ثابت نہیں ہوتا اور اس کے بغیرمحض دعویٰ ہی دعویٰ ہے،جو اہل عقل کے نزدیک بے دلیل ہے۔‘‘
(ترجمہ استفتاء عربی ضمیمہ حقیقت الوحی ص۱۶،خزائن ج۲۲ص۶۳۷)
مرزاغلام احمد نے ختم نبوت کے سلسلے میں اپنے فاسد خیالات کے اظہار کے لئے نہایت گستاخانہ انداز بیان بھی اختیار کیا ہے جو اہانت رسول سے کم نہیں۔ مثلاً وہ لکھتے ہیں:
’’وہ دین دین نہیں اور نہ وہ نبی نبی ہے،جس کی متابعت سے انسان خدا تعالیٰ سے اس قدر نزدیک نہیں ہوسکتا کہ مکالمات الٰہیہ سے مشرف ہوسکے۔وہ دین لعنتی اورقابل نفرت ہے جو یہ سکھاتا ہے کہ صرف چند منقول باتوں پر انسانی ترقیات کا انحصار ہے اوروحی الٰہی آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہے اورخدائے حيوقیوم کی آواز سننے اوراس کے مکالمات سے قطعی نومیدی ہے اوراگر کوئی آواز بھی غیب سے کسی کان تک پہنچتی ہے تو وہ ایسی مشتبہ آواز ہے کہ کہہ نہیں سکتے کہ وہ خدا کی آواز ہے یا شیطان کی۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۳۹،خزائن ج۲۱ص۳۰۶)
’’اوریہی محبت تو ہے جو مجھے اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ باب نبوت کے بکلی بند ہونے کے عقیدے کو جہاں تک ہو سکے باطل کروں کہ اس میں آنحضرتﷺ کی ہتک ہے… کہ مان لیا جائے کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی ہی نہیں آئے گا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ آپؐ کا فیضان ناقص اورآپ کی تعلیم کمزور ہے کہ اس پرچل کر انسان اعلیٰ سے اعلیٰ انعامات نہیں پاسکتا۔ آنحضرتﷺ کے بعد بعثت انبیاء کو بالکل مسدود قرار دینے کا مطلب ہے کہ آنحضرتﷺ نے دنیا کو فیض نبوت سے روک دیا اورآپ کی بعثت کے بعد اﷲ تعالیٰ نے اس انعام کو بند کردیا۔ اب بتاؤ اس عقیدہ سے آنحضرتﷺ رحمۃ اللعالمین ثابت ہوتے ہیں یا اس کے خلاف(نعوذ باﷲ من ذالک) اگر اس عقیدے کو تسلیم کرلیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ آپ(رسول ﷺ ) نعوذ باﷲ دنیا کے لئے ایک عذاب کے طورپرآئے تھے۔جو شخص ایسا خیال کرتاہے وہ لعنتی مردود ہے۔‘‘ (حقیقت النبوت ص۱۸۶،مصنف مرزا بشیرالدین محمود)
’’اگر میری گردن کے دونوں طرف تلوار بھی رکھ دی جائے اورمجھے کہا جائے کہ تم یہ کہو کہ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گاتو میں اسے ضرور کہوں گا کہ توجھوٹا ہے۔کذاب ہے۔آپؐ کے بعد نبی آسکتے ہیں اورضرور آسکتے ہیں۔‘‘ (انوارخلافت ازمرزا بشیرالدین محمود ص۶۵)