کی خبر،جیسے: إِنْ کانَ فِي عَمَلِہٖ خَیرٌ فَجَزائُ ہ خَیرٌ۔
۵-لا: نافیہ یہ حرف، نفی کے لیے موضوع ہے۔
فائدہ:جب ’’لا‘‘ پر واو عاطفہ داخل ہو تو ’’لا‘‘ زائدہ ہو جاتا ہے، [جیسے: مَا جَا.8ئَنيْ زیدٌ وَلا عَمرٌو] اِسی طرح لائے نفی جنس اور ’’لاء‘‘ مشابہ بہ لیس کے قوانین ملحوظ رکھنے چاہیے۔
قوانینِ مُہِمہْ
قانون۱-: ’’مَن‘‘ جب دو جملوں کے شروع میں واقع ہو تو شرطیہ ہوگا(۱)، [جیسے: {وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الاِسْلاَمِ دِیْناً فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہٗ}]۔
[۲]اگرمَنْ دو جملوں کے درمیان آجائے تو موصولہ ہوگا، [جیسے: أَکْرَمَنيْ منْ أَکرمَک](۲)۔
[۳]جب اسمِ مفرد یا مرکبِ غیر مفید پر ’’مَن‘‘ داخل ہو تو وہ مَنْ استفہا میہ مبتدا ہوگا، [جیسے: مَنْ الرَّجلُ؟، مَنْ خادمُ القَومِ؟] یہی حال اُس وقت ہے جب کہ ’’مَن‘‘ دو اسموں کے درمیان واقع ہو، [جیسے:زید من ہو]۔
قانون۲-: [۱]مااسمیہمَنْ کے مانندشرطیہ، موصولہ اور استفہامیہ ہوتا ہے، [جیسے: مَا یَفعَلْ اَفعَلْ،مَا عِندَکُمْ یَنفَدُ وَمَا عِندَ اللّٰہِ بَاقٍ، ما عندک]۔
اگر ’’ما‘‘ کسی اسمِ نکرہ کے بعد واقع ہو تو صفت بنتا ہے۔
(۱)قانون: وہ امرِ کلی ہے جو اُن تمام جزئیات پر منطبق ہو جن کے احکام اُس امرِ کلی سے معلوم ہوتے ہوں ، مثلاً: نصر زیدٌ میں زید امرِجزئی کے بابت کہیں کہ: زید فاعل ہے(امر جزئی)، اور ہر فاعل مرفوع ہوتا ہے(امرِ کلی)، پس زید مرفوع ہے۔
القانونُ: أمرٌ کليٌ منطبِقٌ علیٰ جزئیاتِہ التي تُعرَفُ أحکامُہا منہ، کقَوْلِھم: الفاعِلُ مَرْفُوْعٌ۔ مرتب
ملاحظہ:اصل نسخہ میں قوانین مہمہ کا پہلا قانون یہ تھا:’’ہر فعل ماضی جس کے بعد فعلِ مضارع آجائے تو یہ فعل مضارع ترکیب میں حال واقع ہوگا‘‘،جس کو ’’دو فعل ایک جگہ جمع ہو‘‘والے مضمون سے مناسَبت ہونے کی بنا پر اُسی مضمون کے تحت ذکر کردیا گیاہے۔
(۲)یاد رہے! من اور ما اُن اسمائے موصولہ میں سے ہیں جو لفظا ًمفرد ہیں ؛لیکن معنیٰ کا لحاظ کرتے ہوئے کبھی تثنیہ وجمع بھی ہوتے ہیں ؛ لہٰذا اُن کی طرف لوٹنے والی ضمیر میں لفظ یا معنیٰ دونوں کی رعایت کی جاسکتی ہے، چناں چہ چند مردوں کے لیے أعجبني من قام اور أعجبني من قاموا دونوں طرح کہہ سکتے ہیں ۔ (شرح ابن عقیل: ۱۳۴)