میں سے کسی ایک کی طرف مضاف ہو، یا معرفہ بہ ندا ہو، تو وہ معرفہ ہوگا؛ ورنہ نکرہ(۱)۔
مذکر، مؤنث
اگر کسی اسم کی بابت معلوم کرنا چاہو کہ مذکرہے یا مؤنث؟ تو دیکھو:
اگر اُس کلمے کے آخر میں تائے تانیث، الفِ ممدودہ یا الفِ مقصورہ (۲)تانیث کے ہوں
(۱)ایک ہی اسم جب مکرَّر آئے۔
فائدہ: دو اسموں کی مناسَبت سے ایک اہم قاعدہ اہل اصول کا ہے جو فہم عبارت کے لیے بے حد معین ہے، مندرجۂ ذیل ہے:
[۱]کسی اسم نکرہ کے بعد اُسی اسم کو بہ صورتِ معرفہ دوبارہ ذکر کیا جائے تو ثانی سے عین اول مراد ہوگا، جیسے: کقولہ تعالیٰ{اِنَّا اَرْسَلْنَا اِلیٰ فِرْعَوْنَ رَسُوْلاً، فَعَصیٰ فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ}۔
[۲]اسم نکرہ کو دوبارہ بہ صورتِ نکرہ ہی ذکر کیا جائے تو ثانی سے مراد غیر اول ہوگا، جیسے: ’’یُسْرًا‘‘ (فَاِنَّ مَعَ العُسْرِ یُسْرًا اِنَّ مَعَ العُسْرِ یُسْراً) سو بے شک موجودہ مشکلات کے ساتھ آسانی ہونے والی ہے، بے شک موجودہ مشکلات کے ساتھ(دوسری) آسانی ہونے والی ہے۔ترجَمۂ تھانوی
[۳]کسی اسم معرفہ کو دو بارہ بہ صورتِ معرفہ ذکر کیا جائے تو ثانی سے مراد عین اول ہوگا؛ کیوں کہ الف لام ماقبل میں مذکور معہود کی طرف مشیر ہوگا، جیسے: ’’العسر‘‘ مثال مذکورہ بالا میں ۔ کہ مثال مذکور میں ’’یسر‘‘ نکرہ کا اعادہ بہ صورتِ نکرہ ہے تو گویا آسانیاں دو ہوئیں ۔ قاعدہ نمبر۲؍ کے مطابق اور ’’العسر‘‘ معرفہ کا اعادہ بہ صورتِ معرفہ ہے تو عسرِ ثانی سے عین اول مراد ہوگا، اور مطلب یہ ہوگا کہ ایک مصیبت کے ساتھ دو آسانیاں ہوگی۔ اِسی کی طرف شاعر نے اپنے شعر میں اشارہ کیا ہے:
إذا اشتدتْ بکَ البَلوَی ففَکِّرْ فِي أَلَمْ نَشْرَحْ
ۃ
فعسرٌ بینَ یُسرَینِ إِذا فَکرتَہٗ فافرَحْ
[۴]اسم معرفہ کا بہ صورت نکرہ اعادہ کیا جائے تو ثانی سے غیر اول مراد ہوگا، جیسے: باری تعالیٰ کا فرمان: {اِھبطوا بعضُکمْ لبعضٍ عدوٌّ}
وینبغی أن یعلم أن ہٰذا کلہ عند الإطلاق وخلوّ المقام عن القرائن۔ والتفصیل في ’’نورالأنوار‘‘ (ص:۸۶) فلیراجع۔مرتب
(۲)الفات:
الاسمُ المقصورُ: لاتکونُ الفُہٗ أصلِیَّۃ أبداً، وإِنما تکونُ مُنقلِبَۃً، أَو مَزیدۃً۔
والمُنقلِبَۃُ: إِمَّا مُنقلبۃً عنْ واوٍ کالـ’’عصا‘‘، وإِمَّا منقلبۃً عن یائٍ کـ’’الفتیٰ‘‘۔ والمَزیدۃُ: إِمَّا أن تزاد للتأنیث، کحبلیٰ، وعطشیٰ، وإما أن تزاد للإلحاق، کأرطیٰ وذفریٰ۔ الأُولیٰ ملحقۃ بجعفر والأخریٰ ملحقۃ بدرھمٍ، وتسمیّٰ ہٰذہ الألف: ’’الالفَ المقصورۃَ‘‘۔وہي ترسم بصورۃ الیاء إن کانت رابعۃ فصاعداً، کبشریٰ ومصطفیٰ؛ أو کانت ثالثۃ أصلہا الیاء، کالفتیٰ والندیٰ۔ وترسم بصورۃ الالف إن غ