جب کسی کتاب کا مطالعہ کرنا چاہو تو دیکھ لو کہ آیا یہ متن ہے یا شرح؟۔ متن(۱) کے مطالعے کی کیفیت وطریقہ حسبِ ذیل ہے:
بسملہ و حمدلہ
آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اکثر حضراتِ مصنفین کی یہ عادت چلی آرہی ہے کہ، اپنے مقصد کو شُروع کرنے سے قبل بَسملہ(۲)، حَمدلہ وتَصلیہ کو ذکر کر تے ہیں ؛تاکہ:
۱-حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے کلامِ پاک کی متابعت ہوجائے۔
۲-حضرت سیدنا و مولانا و سَندنا ہادِینا و مرشدنا ومأوانا شفیع المُذنِبین، رحمت للعالمین، محبوب رب العالمین، سید البشر، محسنِ عالم، مصلح اعظم، نبیٔ مکرم، رسولِ معظم، واجب الاطاعت محمد مصطفیٰ، احمدِ مجتبیٰا کے قول وارشاد کا اتباع ہوجائے۔ قال النبيا: کُلُّ اَمْرٍ ذِيْ بَالٍ لَمْ یُبْدَأْ فِیْہٖ بِبِسْمِ اللّٰہِ فَہُوَ أَقْطَعُ۔ اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا: کُلُّ أَمْرٍ ذِيْ بَالٍ لَمْ یُبْدَأْ فِیْہِ بِحَمْدِ اللّٰہِ، فَہُوَ أَبْتَرُ(۳)۔
۳- نیز سلفِ صالحین کے مصنَّفات کی اتباع ہوجائے۔
تصلیہ: (صلاۃ علی النبي)
[تصلیہ: عقل کا تقاضہ یہ ہے کہ ہر علم و کتاب کے شروع کرنے سے قبل صلاۃ علی النبی
(۱)متن کی تعریف: المؤَلفُ الذيْ یکونُ مُشتمِلاً علی نَفسِ مَسائلِ ذٰلکَ العلمِ بِقدرِ ضَرورۃٍ معَ لِحاظِ الاختصارِ، یُسمَّی ’’بالمَتْنِ‘‘۔ وہوَ بفتحتَینِ، اسمٌ لما اکتنف من الحیوانِ، ویقالُ: المتانُ للقوّۃِ، والمتینُ للقويِّ؛ سُمِّيَ بہِ لکونِہِ أَساساً وَأَصلْاً للشُّروْحِ وَالحَواشيْ۔ (شرح الوقایۃ ۱؍۴۹ حاشیہ:۹) متن: اُس تألیف شدہ عبارت کو کہتے ہیں جو کسی علم کے بقدرِ ضرورت نفسِ مسائل پر بالاختصار مشتمل ہو۔
(۲)لفظِ بسملہ، حمدلہ، وتصلیہ’’نحت‘‘کے قبیل سے ہے، النحتُ: ھوَ في الاصطلاحِ اَنْ یُنتَزَعَ من کَلمتَینِ أو أکثرَ کلمۃٌ جدیدۃٌ تدلُّ علی مَعنیٰ ما انتزِعتْ منہٗ۔ وتکونُ ھٰذہ الکلمۃُ إِمَّا اسماً، کـ’’البَسْمَلَۃِ‘‘ (من قولک بسم اللہ)،أو فِعلاً کـ’’حَمْدَلَ‘‘ من قولک الحمدُ للّٰہ، أو حرفاً کـ’’إِنَّمَا‘‘ مِنْ ’’إِن‘‘ و’’ما‘‘، أو مختلَطۃً کـ’’عَمَّا، مِنْ’’عَنْ‘‘ وَ’’مَا‘‘۔ ولابُدَّ لھا في الحالتین الأوَّلینِ من أَنْ تجرِیَ وِفقَ الأوزانِ العرَبیَّۃ۔ (موسوعۃ ص:۶۷۰)
(۳)حمد وبسملہ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں :قال النبيا: کُلُّ اَمْرٍ ذِيْ بَالٍ لَا یُبْدَأْ فِیْہٖ بِبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ فَہُوَ أَقْطَعُ۔رواہ الخطیب وعبد الرحمٰن الرھاوي بہٰذا اللفظِ في کتاب الجامع۔ غ