اللاَّمِ۔ اِلیٰ آخِرِہٖ… فافہمْ۔
اجوبۂ مختلفہ اور اُن کی حیثیات
قاعدہ۲۲): گاہے گاہے ایک اعتراض کے کئی جوابات دیے جاتے ہیں (۱):
(۱) جیسے: صاحبِ ہدایہؒ دلیل إنی کے بعد دلیل لمی کو بیان کرتے ہیں :
ربما یذکر الدلیلُ العقلي بعد العقلي کأنہ یؤمي إلیٰ لِمِّہ۔ قال في نتائج الافکار: دأب المصنف (صاحب الھدایۃ) أنہ یقول بعد ذکر دلیلٍ علیٰ مُدعیٰ ’’وہٰذا لأن‘‘الخ، ویرید بہ ذکر دلیلٍ لمّيٍّ بعد أن ذکر دلیلاً إنّیاً۔(مقدمۂ ھدایہ ۳؍۳)
فائدہ: جب ایک دلیل عقلی کے بعد دوسری دلیل عقلی لائی جاتی ہے، اُس وقت اُس دلیل سے ماقبل میں ذکر کردہ دلیل عقلی (دلیلِ أنی) کی ’’لِمَ‘‘ اور علت یعنی دلیل ’’لِميّ‘‘ بیان کرنا مقصود ہوتا ہے۔ صاحبِ ہدایہ کا یہ اسلوب رہا ہے کہ، وہ مدعیٰ پر دلیل ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ’’وہٰذا لأَنّ الخ‘‘ اگر اِس جیسی عبارت کہیں اَور بھی آجائے تو اُس کا مطلب یہ ہوگا کہ: یہ دلیل ’’إنيّ‘‘ کے بعد دلیلِ لمی بیان ہو رہی ہے۔ (دلیل لمی اور انی کی تعریفات ’’دستور الطلباء‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں )۔مرتب
جیسے: قال: م: ومن کان لہ علیٰ آخر ألفُ درہمٍ، فقال: إذا جاء غدٌ فہیَ لکَ، أوْ أنتَ بریٌٔ منہا؛ أو قال:إذا أدیت إليّ النصفَ فلک النصفُ، أو أنت بریٔ من النصف الباقي، فہو باطل۔
ش: ((لأنَّ)) الإبراء تملیکٌ من وجہٍ، وإسقاطٌ من وجہٍ، وہبۃُ الدین ممّنْ علیہِ إبرائٌ۔ و((ہٰذا لأنَّ)) الدینَ مالٌ من وجہٍ، ومن ہٰذا الوجہِ کان تملیکاً؛ ووصفٌ من وجہٍ، ومن ہٰذا الوجہ کان إسقاطاً۔(ہدایہ ۳؍۲۹۲)
یعنی ایک شخص کے دوسرے پر ہزار درہم قرضہ ہوں ، پس قرض خواہ نے کہا کہ: جب کل کا دِن آئے گا تو یہ درہم تیرے واسطے ہیں ؛ یا تُواِن درہموں سے بری ہے؛ یا کہا کہ: جب تُونے مجھے آدھے ادا کردیے تو تیرے واسطے باقی آدھے ہیں ؛ یا تُو باقی آدھے سے بری ہے، تویہ تملیک یا برائت باطل ہے؛ کیوں کہ بری کرنا ایک اعتبار سے مالک بنانا ہے اور ایک اعتبار سے اسقاط ہے، اور وجہ اِس کی یہ ہے کہ قرضہ من وجہٍ مال ہے اِس اعتبار سے تملیک ہوتی ہے، اور ایک اعتبار سے وصف ہے اِس بناء پر اسقاط ہوتا ہے۔
جیسے: ویطلقہا للسنۃِ ثلاثاً، یفصل بین کل تطلیقتین بشہرٍ عند أبي حنیفۃَ وأبي یوسف، وقال محمدٌ: لایطلقہا للسنۃ إلا واحدۃً؛ ((لأنّ)) الأصل في الطلاقِ الحظر((اصل کلی))، وقد ورد الشرعُ بالتفریقِ علیٰ فصول العدۃ، والشہرُ في حقِّ الحاملِ لیسَ من فصولہا، فصار کالممتدۃِ طہرہا۔ ولہما: أن الإباحۃ لعلۃ الحاجۃِ، والشہر دلیلہا، کما في حق الآیسۃ والصغیرۃ، و((وہٰذا لأنّہ)) زمان تجددِ الرغبۃ علیٰ ما علیہ الجِبلۃ السلیمۃ، فصلح عَلماً ودلیلاً، بخلاف الممتدۃ طہرہا؛ لأن العلمَ في حقہاإنما ہوَالطہر، غ