طریقۂ مطالعہ
طالب اگر ابتدائی کتابیں پڑھتا ہے تو وہی طریقہ اختیار کرے جو ’’القسم الاول‘‘ میں درج ہوچکا ہے،اور اگر اوپر کی کتابیں پڑھتا ہے تو پھر یہ طریقہ اختیار کرے کہ پہلے سرسری نظر کرلے، پھر دوبارہ اُس کو دیکھ لے عَلیٰ حَسْبِ مَاحَرَّرْتُہٗ فِي القِسْمِ الثَّانِي۔
اگر اب بھی کچھ پوشیدگی ہے تو معلوم کروکہ:
۱) وہ کمی لغتِ الفاظ کے نہ جاننے کی وجہ سے ہو تو کتب لغت یا شرح دیکھ لیں ، یا تو پھر استاذ سے پوچھ لیں ۔
۲) وہ کمی کاتب کی غلطی کی وجہ سے ہوا ہے، کہ کاتب نے کچھ عبارت میں تصحیف یا تحریف(۱) کردی ہے، یا کچھ عبارت بڑھا گھٹادی ہے۔
۳)کلمات یا حروف کو آگے پیچھے کردیا ہے، جیسے: اِبْنًالَہٗ،کا اَنْبَالَہٗ(جمعُ: نبل) ہوگیا ہے، تو ایسی صورت میں عقل سے کام لے، یا دوسرے نسخۂ کتاب میں سے دیکھ لے(۲)۔
(۱) تصحیف وتحریف کی تعریف ’’دستور الطلباء‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں ۔
(۲)بسا اوقات نسخوں کی تبدیلی بھی فہمِ مطالب میں خلل انداز ہوا کرتی ہے، جیسے: ہدایہ کتاب الدیات میں جہاں پر یہ ذکرکیا ہے کہ، کوئی مقتول کسی محلے میں پایا جائے اور اُس پر قتل کے نشانات بھی ہوں ؛ لیکن قاتل کا پتہ نہ ہو اور ولی کا یہ دعویٰ ہو کہ، تمام اہلِ محلہ نے یا بعض غیر معین افراد نے اِسے قتل کیا ہے، تو ایسے وقت میں مقتول کے ولی کو اختیار ہے کہ، اہلِ محلہ میں سے پچاس آدمیوں کو منتخب کرے، جن سے اِس انداز میں قسم لی جائے گی: باللہ ما قتلناہ ولاعلمنا لہ قاتلا جس کو ’’قسامت‘‘ کہا جاتا ہے؛ لیکن اگر مدعی کا دعویٰ کسی ایک معین فرد پر ہے تو وہ دو حال سے خالی نہیں : یا تو فردِ معین اہلِ محلہ میں سے ہوگا یا تو نہیں ۔ صورتِ ثانی میں اہلِ محلہ پر قسامت نہیں ہوگی؛ کیوں کہ قسامت اہلِ محلہ کی تقصیر پر آتی ہے، اور ظاہر کے اِس بات پر شاہد ہونے کی وجہ سے کہ قتل اِن سے ہی ہوا ہے ،اور یہاں اہلِ محلہ سے کوئی کوتاہی سرزد نہیں ہوئی۔ رہی صورتِ اولیٰ، تو اِس میں اگرچہ مدعی کا دعویٰ فردِ معین پر ہے؛ لیکن اِس بناء پر قیاس کا تقاضہ تو یہ تھا کہ باقی اہلِ محلہ پر قسامت نہ آئے؛ لیکن استحساناً اہلِ محلہ پر بھی قسامت آئے گی؛ کیوں کہ نصوص میں الگ الگ دعووں کی تفصیل نہیں ؛ لہٰذا بوجہِ نص کے تمام اہلِ محلہ پر قسامت آئے گی۔
آمدم بر سرِ مطلب: اِس جگہ پر ہدایہ کے نسخوں میں فرق ہے۔ یاد رہے اِس مسئلہ کا تذکرہ صاحبِ ہدایہؒ نے اولاً شروع میں ذکر کیا ہے، جس نسخہ کے مطابق اِس شکل پر وجہِ قیاس واستحسان کو ذکر کیا ہے۔ وَلو ادَّعَی الوَليُّ علی البعضِ بِأعْیانِھِمْ أَنہٗ قَتلَ وَلیَّہٗ عَمَداً أوْخَطَأً، فَکذَالِکَ الجَوابُ، یَدُلُّ عَلَیہِ إِطلاقُ الجَوابِ فِي الکتابِ، أَيْ وَإِذاغ