ماتن کی متانت
اب اِس وقت ناچیز، ہیچ مداں ، سراپاعصیان عرض کرتاہے کہ:
کُتبِ عربیہ کے ماتنین و شارحین مصنفین کے یہاں کچھ مخصوص الفاظ ایسے ہیں جن سے مخصوص اغراض وابستہ ہوتی ہیں (۱)، اِس واسطے اُن الفاظ کی الگ الگ اغراض بیان کیے دیتا ہوں ، جن میں سے اکثر قوانین تو قوانینِ کلیہ ہیں اور بعضے قوانین اکثریہ ہیں ۔
پہلے وہ الفاظ بیان کرتا ہوں جن کو اکثر مصنفین ماتنین استعمال کرتے ہیں (۲)۔
قانون۱-: کسی ایک مقسَم کے اقسام کو ذکر کرلینے کے بعد اِنْ یا اِذا شرطیہ کا لانا، ان اقسام کے احکام و قوانین کو بیان کرنے کی غرض سے ہوتا ہے،(۳) لفظِ کلما بھی اِنہیں دو
(۱)بسا اوقات مصنف کے کچھ مخصوص رموز واشارات ہوتے ہیں جن کو سمجھنے کے لیے، نیز کتاب کے خاص نہج کو سمجھنے کے لیے اوائلِ کتاب یعنی مقدمہ پڑھنا ناگزیر ہوتا ہے؛ تاکہ ان کی تعبیرات مخصوصہ کو جان سکے اور طرز مصنف سے واقف ہوکر کتاب سے کما حقہ فائدہ اٹھاسکے۔مرتب
(۲)کسی بھی متن کی شرح کو حل کرنے سے پہلے متن کے ایک ایک لفظ کو غور سے دیکھیں اور صورت مسئلہ ذہن میں بٹھائیں ؛ کیو ں کہ متن میں ذکر کردہ صورت مسئلہ کا ایک ایک لفظ قید احترازی کی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ اب شرح کو دیکھتے ہوئے متن کے لفظ، جملہ یا فقرہ کا ترجَمہ اور مطلب کو مستحضر رکھیں ؛-کیوں کہ مضمون کا ہر ایک جملہ، اور جملے کا ہر ایک لفظ آپس میں مربوط ہوتا ہے- اور حواشی سے مدد لیتے ہوئے چلتے رہے، انشاء اللہ مطالعہ آسان ہوجائے گا۔مرتب
(۳)جیسے شرح ابن عقیل میں مبتدا کی خبر میں عائد(رابط) ہونے نہ ہونے کی بحث کے ضمن میں بیان کیا ہے کہ: اگر خبر بہ صورتِ جملہ ہے اور معنیٔ مبتدا کو شامل نہیں ہے، تو اُس میں رابط کا ہونا ضروری ہے چاہے وہ رابط بہ صورتِ ضمیر ہو، جیسے: زید قام ابو’’ہ‘‘، یا بہ صورت اشارہ ہو، جیسے: {ولباسُ التقْویٰ ذلک خیرٌ}۔ یا اُس میں تکرارِ مبتدا ہو، جیسے: {الحاقۃ ما الحاقۃ} ۔اور اگر خبر معنیٔ مبتدا کو شامل ہو تو وہ رابط کا محتاج نہیں ہے، جیسے: نطقي(مبتدا): اللّٰہ حسي (خبر)، میرابول ’’اللہ حسبی‘‘ ہے۔ اگر خبر مفرد ہے تو لا محالہ وہ خبرِ مفرد، جامد ہوگی یا مشتق؟ اگر جامد ہے تووہ(۱) معنیٔ مشتق کو متضمن ہوگی (۲) نہ ہوگی۔ شق اول مؤول بالمشتق متحملِ ضمیر ہوگی، جیسے: زید أسدٌ أي شجاعٌ۔ شق ثانی پر ضمیر رابط نہ ہوگی، جیسے: زید أخوک۔ اور اگر وہ خبرِ مفرد مشتق ہے تو وہ متحمل ضمیر ہوگی بہ شرطے کہ وہ کسی اسم ظاہر کو رفع نہ دے، جیسے: زید قائم۔ اب عبارت کو دیکھئے:
ینقسم الخبرُ إلیٰ: مفردٍ، وجملۃٍ؛ وسیأتي الکلامُ علیٰ المفردِ۔
فأما الجملۃُ: فإما أن یکون ہي المبتدأُ فيْ المعنَی، أوْ لا((حصرِ عقلی))؛ فإنْ لمْ تکنْ ہيَ المبتدأغ