مقدمہ
ازقلم: محمد الیاس گڈھوی
الحمدُ للّٰہ ربِّ العالمِینْ، والعَاقبۃُ للمتقینْ، والصَّلاَۃُ والسَّلامُ علیٰ سیِّدِ المُرسلینْ، وعَلَی آلہِ واَصْحابہِ المُجتھدینْ، وعَلیٰ مَنْ تَبعہمْ -مِن المُعلِّمینْ والمُتعلمینْ- إلیٰ یَومِ الدینْ۔
أمّا بعد! یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ، جملہ فنون کو اہلِ فنون نے اپنی اپنی کتابوں میں درج فرمایاہے، ہم اُن کتابوں سے مستفید ہو کر اپنے مقصدِ اعلیٰ کو پہنچ سکتے ہیں ؛ لیکن بغیر ضابطے کے اُن کتابوں سے استفادہ دشوار ہے۔ وہ ضابطہ یہ ہے کہ، فن مطالعہ پر واقفیت ہو اُس کے قوانین کا علم ہو، یہ وہ علم ہے جس پر تمام فنون کا مدار ہے، حتیٰ کہ مقصود بالذات اور ترکۂ نبوی ا (قرآن وسنت)کا مطالعہ کرنا، اُن کو سمجھنا اور اُن کے حقائق ودقائق سے واقف ہونا بھی اِسی علم پر موقوف ہے۔ اِسی اہمیت کے مد نظر رکھتے ہوئے مولانا موصوف نے زیرِ نظر کتاب میں مبتدی اور متوسط طلبہ کے لیے مطالعے کا طریقہ بیان فرمایا ہے، اور کتاب میں وہ قواعد وطرق بیان کیے گئے ہیں جن سے حقائق و دقائقِ عربیہ سے مکمل فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ، زیرِ نظر کتاب: ’’أنوار المَطالعْ في ھدایاتِ المُطالع‘‘ در اصل محقق ومدقِّق مولانا حافظ محمد حسین صاحب کا ایک قیمتی تحفہ ہے، جو علم المطالعہ کے اہم اصولوں پر مشتمل ہے۔ حضرت مصنفؒ نے اِس کتاب کو دو قِسموں پر منقسم کیا ہے:
قسمِ اول میں مبتدی طلبہ کے مطالعے کا طریقہ ہونا چاہیے، اور عبارت پر عبور حاصل کرنے کا قرینہ بیان کیا ہے؛ نیز دورانِ مطالعہ مبتدی جن پریشانیوں سے سراسیمہ اور عبارت کی پیچیدگیوں میں سرگَرداں رہتا ہے، اُن کا حل ذکر کیا ہے۔
قسمِ ثانی میں متوسط طلبہ کی رہبری کے لیے ایسے انوکھے اور کار آمد اصول بیان کیے ہیں جن کو پڑھنے والا انگشت بہ دنداں ہوجاتا ہے، کتاب کاہر مضمون اور مضمون کا ہرایک قاعدہ ’’دریا بہ کوزہ‘‘ کا مصداق ہے؛ بلکہ اِس کی ہر لکیر تشنگانِ علومِ نبوَّت کے لیے سنہرے حروف سے لکھنے