سِیاق وسَباق کو دیکھ کرکوئی ایک مناسب معنیٰ کی تعیین کرنا ضروری رہے گا۔
حروفِ معانی
مخفی نہ رہے کہ، چیزوں [حروف معانی]میں امتیاز کرنا یا تو تعریفات سے ہوتا ہے، یا علامات سے۔ تعریفات سے امتیاز کرنا تو آپ علمِ صرف ونحو میں پڑھ چکے ہیں ،رہی علامتیں جن کا لحاظ کرنا طلبا کے لیے اَشد ضروری ہے، اُن میں سے چند ضروری اور کثیر الوقوع علامتوں کا بیان حسبِ ذیل ہے، اِن کو خوب ضبط کر لیجئے۔ ھا أنا أشرع فیہ۔
۱- ’’باء‘‘: اِس کا معنیٔ موضوع لہ تو الصاق(۱)ہے؛ لیکن اگر اِس کا مدخول ظرف ہو تو اُس وقت فی کے معنیٰ میں کر لیا جاتا ہے، [جیسے: زیدٌ بالبلدِ] (۲)، جب کہ باقی معانی کا مدار سماع پر ہے۔
۲- ’’لام‘‘: اِس کی وضع تو’’اختصاص ‘‘کے لیے ہے [جیسے: الجُلُّ للفَرسِ]؛ لیکن
ـعَلَی النَّبِيِّ}میں بہ یک وقت رحمتِ الٰہی اور استغفارِ ملائکہ مراد ہیں ، جب کہ احناف یصلون کویعتنون -بہ معنیٰ توجہ کرتے ہیں کے معنیٰ میں مراد لیتے ہیں ، جس میں باری تعالیٰ اور فرشتے دونوں داخل ہیں ۔
ہاں !اگر دونوں معنوں میں تضاد ہے تو بہ یک وقت دونوں معانی کو بالاجماع مراد نہیں لیا جائے گا، جیسے: ’’قرء‘‘ بہ معنیٰ حیض وطہر؛ کہ ان دونوں معانی کو علی سبیل البدلیت مراد لیا جا سکتا ہے نہ کہ علیٰ سبیل الجمع۔(ماخوذ از:نورالانوار ،۸۸)
(۱) الالصاقُ: وَہوَ اِتصالُ الشَّيئِ بِالشَّيئِ، إمَّا حَقیقۃً، نحوُ بِہِ دَائٌ؛ وَإمّا مَجازاً، نَحوُ: مَررتُ بِزیدٍ، أيْ اِلتصقَ مُروريْ بِمکانٍ یَقرُبُ مِنہٗ زیدٌ۔ (شرح مأۃ)
باء کے معانی کی تفصیل کے لیے ’’مغنی اللبیب‘‘ اور’’شرح مأۃ عامل‘‘ ملاحظہ فرمائیں ۔ مرتب
(۲) خبر پر باء زائدہ، زیادتی کے اعتبار سے تین قسموں پر ہے: (۱)کثیر الوقوع (۲)قلیل الوقوع (۳)اقل۔
زِیادَۃُ البائِ فيْ الخَبرِ عَلیٰ ثلٰثۃِ اَقسامٍ:کثیرٌ، قَلیلٌ، أَقلُّ۔
فَالکثیرُ فيْ ثلاثۃِ مَواضعَ: وَذلکَ بعدَ ’’لَیْسَ‘‘ و’’مَا‘‘، نحوُ: {أَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ}، {وَمَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ}، وبعدَ ’’أوَلَمْ‘‘، نحو: {أَوَلمْ یَرَوْا أَنَّ اللّٰہَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ بِقَادِرٍ}،لأنَّہٗ فيْ مَعنیٰ ’’أَوَ لَیسَ اللّٰہُ بِقادِرٍ‘‘۔
وَالقَلیلُ فيْ ثلاثۃِ مَواضِعَ: بعدَ ’’کانَ وَأَخَواتِہا‘‘ مَنفِیَّۃً، وَبعدَ ’’ظنَّ وَأَخَواتِہا‘‘ مَنفیّۃً، وَبعدَ ’’لا‘‘ العَامِلۃِ عَمَلَ لَیْسَ۔
وَالأَقَلُّ فيْ ثَلاثۃِ مَواضِعَ: بعدَ ’’إنّ، وَلٰکنّ، وَ ہَلْ۔ (الاشباہ والنظائر)