اُس وقت مطلب یہ ہو تا ہے کہ، شاید معترض کو اِس بات سے دھوکا لگا ہے ،کہ حضرت مصنفؒ سے اِس جگہ تسامح ہوا ہے، گو بہ ظاہر ایسا معلوم بھی ہوتا ہے جیسا کہ معترض کا خیال ہے؛ لیکن شارح فرماتے ہیں : بات وہی صحیح ہے جومصنف نے بیان فرمائی ہے، پھر اس وہمِ معترض کا رفع اُس ذکر کردہ دلیل سے کرتے ہیں (۱)۔
اور کبھی منشائے اعتراض کو ذکر نہیں کرتے؛ اِس لیے کہ وہ اعتراض خود ایسا ظاہر ہے کہ جس کو ذکر کرنے کی چنداں حاجت نہیں ہے(۲)۔
وجہِ تسمیہ، وجہِ عدول اور کلمۂ اِنَّمَا
قاعدہ۲-: شارح جب لفظِ ’’اِنّمَا‘‘ کو فعلِ ’’سُمِّيَ‘‘(۳) پر داخل کرتے ہیں تو اس
(۱)جیسے شرح تہذیب کے مقدمہ میں ہے:م: والصلاۃُ والسلامُ علیٰ من أَرسلہ۔
مصنف کی اِس عبارت پر تین اعتراض ہوئے تھے: (۱)صلاۃ وسلام کے موقع پر مصنفؒ نے آقا اکا نام کیوں ذکر نہیں کیا؟ (۲) اگر کسی صفت ہی کو ذکر کرنا تھا تو وصفِ رسالت کو کیوں ذکر کیا؟ (۳) اگر وصفِ رسالت تمام صفاتِ کمالیہ کو گھیرے ہوئے ہے تو وصفِ نبوت بھی تمام صفاتِ کمالیہ کو مستلزم ہے، اُس کا تذکرہ کیوں نہیں کیا؟
ش: لم یُصرِّح((أي المصنف،فعلِ مصنف پر اعتراض)) باسمِہ (أي باسم المرسَل بـ’’محمدٍ‘‘) علیہِ السلامُ، تَعظیماً وإجلالاً وتنبیہاً((مفعول لہ)) عَلیٰ أنہ ((جوابِ ثانی، جواب بالعلاوہ)) فیمَا ذُکر من الوَصفِ [الرِّسالۃِ] بمَرتبۃٍ لایَتبادرُ الذہنُ منہٗ إلاّ إلیہِ۔
واختارَ (أي المصنفؒ)((فعلِ مصنف)) من بینِ الصِّفاتِ ہٰذہِ ((جواب سوال مقدر)) لکونِہا (أيْالرسالۃَ)((مدعی میں أرسل فعل کے مصدر سے ابتدا)) مُستلزمۃً لسائرِ الصفاتِ الکمالیّۃِ؛ ((لأنَّ)) الکمالَ البشريَّ یتمُّ بالرسالۃ، معَ ما فیہِ ((وہمِ ناشی کا منشائِ اعتراض))من التصریحِ بکونہِ علیہ السلامُ مُرسلاً، ((فإنَّ الرسالۃَ)) فوقَ النبوّۃِ، ((فإنَّ)) المرسلَ ہوَ النبيُّ الذيْ اُرسلَ إلیہِ وَحيٌ وکتابٌ۔(شرح تہذیب:۳)
فائدہ: قولہ: فإن الرسالۃ الخ…جواب عما یقالُ: ما الفائدۃ في التصریح بکونہ علیہ السلام مُرسلاً؟ وحاصل الجوابِ: أن فیہ بیان عظمۃ شأنہ ورفعۃ مکانہ۔
(۲)شارح کا دلیل (لمی وإنی)کو بیان کرنا۔
وَالاَصْلُ فِيْ الاَخْبَارِ اَنْ تُؤَخَّرَا((مدعیٰ))
وَجَوَّزُوْا التَّقْدِیْمَ إذْ لاَ ضَرَرا
الاصلُ تَقدیمُ المُبتدأِ وَتأخیرُ الخبرِ،((خبر میں تاخیر کیوں اصل ہے؟)) وَذلکَ لأنَّ الخَبرَ((دلیلِ لمی)) وَصفٌ فيْ المَعنَی للمُبتدأِ، فاُستحقَّ التأخیرَ کالوَصفِ۔ (ابن عقیل:۱۹۵)
(۳) جیسے: الافعال الناقصۃ: ش:وإنما سُمّیتْ ناقصۃً((منقولِ اصطلاحی))، لأنہا لاتکونُ بمُجرّدِغ