قاعدہ۳۳): کلام کے اختتام کے بعد شراح کا فَلاَیَرِدُ عَلَیْہِ، فَلاَیَرِدُ بِہِ؛ یا فَلاَیَعْتَرِضُ عَلَیْہِ، …بِہِ؛ یا فَلاَوُرُوْدَ بِہِ، …عَلَیْہِ؛ یا فَلاَنَقْضَ عَلَیْہِ، …بِہِ، وغیرہ کہنے سے شارح کامقصد اپنی طرف سے بڑھائی ہوئی قید کے فائدے کو بیان کرنا ہوتا ہے؛ لہٰذا اِن الفاظ پر جو فاء داخل ہوئی ہے یہ تعلیلیہ ہے، اور اُس کا مابعد محذوف مُدعیٰ کی دلیل ہوتی ہے، اور وہ دلیل یہ ہے: زِدْتُ ہَذَا القَیْدَ لِئَلاَّ یَرِدَ اِلخ…۔ أَیْ لَوْ لَمْ یُزَدْ ہَذَا القَیْدُ عَلَی قَوْلِ المَاتِنِ لَوَرَدَ عَلَیْہِ۔ (۱)
فائدۂ نافعہ
مصنفین کی لغزشوں پر عذر بیانی اور اندازِ تحریر
مصنف نے جب کوئی قید ذکر نہ کی ہو اور شارح نے اپنی طرف سے اس قید کو بڑھا یا ہے تو اِس صورت میں آپ یہ کہہ سکتے ہیں : کہ مصنف نے اِس قید کو کیوں ذکر نہیں کیا؟ آخر اِس
ـ ایک ہی طرح کا ہوتا ہے، جیسے: الانسانُ منْ حیثُ أنَّہ انسانٌ، حیوانٌ ناطقٌ۔
حیثیتِ تقییدیہ: اِس میں حیثیت، محیث کے لیے قید ہوتی ہے اور دونوں کے ملنے پر ایک تیسری چیز کا حکم لگایا جاتا ہے، جیسے: الانسانُ منْ حیثُ أنَّہ کاتبٌ، متحرکُ الأَصابِعِ۔ اِس میں محیث مع الحیثیت یعنی ’’انسان مع الکاتب‘‘ پر تحریکِ اصابع کا حکم لگایا گیاہے۔ (اسعاد الفہوم:۲۴)
حیثیتِ تعلیلیہ:وہ حیثیت ہے جو محیث کے احکام کو تبدیل کردے، جیسے: زید مکرم من حیث أنہ عالم میں تکریم زید کا حکم بہ حیثیت علم ہے؛کیوں کہ فقدانِ علم کی صورت میں یہ حکم نہیں تھا۔
جیسے شرحِ تہذیب میں ہے: وموضوعہ (أي المنطق) المعلومُ التصوري والتصدیقي، من حیث أنہ یُوصِل إلیٰ مطلوبٍ تصوريٍّ، فیسمیٰ ’’مُعرِّفاً، أوْ تصدیقيٍّ، فیسمیٰ ’’حجۃً‘‘۔ یعنی منطق کا موضوع معلوم تصور ومعلوم تصدیق ضرور ہے؛ لیکن مطلقاً نہیں ؛ بلکہ اِس حیثیت سے کہ وہ معلوم تصور وتصدیق ، نا معلوم تصور وتصدیق کی طرف پہنچانے والے ہیں ؛ لہٰذا زید، عمرو سے حاصل ہونے والے امورِ جزئیہ اور النار حارۃ جیسے تصور وتصدیق مناطقہ کا موضوع نہ ہوں گے۔
(۱)’’بخِلاف‘‘ اور ’’وَبِخلافِ‘‘ دونوں طرح کے الفاظ مستعمل ہیں ۔ اگر ’’بِخلاف‘‘ کا لفظ ہے تو اِس سے گزرے ہوئے مسئلہ کی مخالف شق مراد ہوتی ہے، کہ حکم ماقبل، مابعد میں نہیں ہے، جب کہ ’’وَبِخلافِ‘‘ کا لفظ ’’بخلاف‘‘ کے بعد آئے تو اُس وقت مقصود یہ ہے کہ، مسئلۂ مذکور کی طرح اِس مسئلہ میں بھی حکم ایسا ہی ہے جیسا ماقبل مسئلہ کا ہے۔ مرتب