کا مدار ہے- کے قواعد و کیفیات سے آگاہی کی جائے؛ تاکہ حقائق و دقائقِ عربیہ سے مکمل فائدہ اُٹھایا جاسکے۔
اب مطالعے کے آداب اور اُس کی کیفیت بیان کرنے سے پہلے یہ عرض کیے دیتا ہوں کہ: کون سے حضرات مطالعہ کے قابل ہیں ، اور کون علم حاصل کرنے کے قابل ہیں ؟ اِس لیے کہ جس طالب میں کسی چیز کے حصول کی قابلیت ہی نہ ہو، وہ کیوں اپنی عمر ایسے کام میں ضائع کرے جس میں چنداں فائدہ نہ ہو، اُس کو بس اِتنا کا فی ہے کہ حلال روزی کماکر کھائے، نماز، روزہ اداکرتا رہے، جب کوئی مسئلہ حرام حلال کا پیش آجائے تو کسی مُستنَد عالم سے دریافت کرکے اُس پر عمل کرلے۔
فصل
في مَنْ یُحصِّلُ العلمَ: علم کے حاصل کرنے کے لیے کچھ شرائط ہیں جن کے بغیر تحصیلِ علم نہیں ہوسکتی:
ایک سچا طالبِ علم اور اُس کے صفات
جو شخص علم حاصل کرے وہ جوان ہو، فارغ القلب، صحیح المزاج ہو، علم کی محبتِ شدید اُس کے دل میں مرکوز ہو، دنیا کی طرف اُس کو قطعاً التفات نہ ہو،علم پر کسی چیز کو ہر گز ترجیح نہ دے، یعنی جب علم کے ساتھ کوئی اَور چیز مُزاحم ہو تو علم کے مقابل میں مزاحِم کو ترک کردے۔
افسوس! آج کل کے طلبا کا معاملہ اِس کے بر عکس ہے، مثلاً :ایک جگہ پڑھائی اچھی ہوتی ہے؛ مگر مدرسے والوں نے حجرہ نہیں دیا، یا وظیفہ کم ہے، تو جس مدرسے میں حجرہ ملتاہو یا وظیفہ زیادہ ہو، وہاں چلے جاتے ہیں خواہ پڑھائی کیسی ہی ہو۔ یادرکھیے کہ ایسے طلبا ’’طُلَبَائُ الخُبْزِ وَالوَظِیْفَۃِ‘‘ ہیں نہ کہ ’’طُلَبَائُ العِلْمِ‘‘۔
طالب علم ہمیشہ سچ بولا کرے نہ کہ جھوٹ، منصف مزاج ہو؛ دین دار،دِیانت دار، امانت دار ہو، وظائفِ شرعیہ اور اعمال دینیہ کا عالم اور اُن پر عامل بھی ہو، حلال حرام کا خَیال کرنے والا ہو، رسوم اور عادات میں جمہور کا مُقتفِی ہو، سيّ ٔالخلق، فظّ غلیظ نہ ہو، مرتبے میں جو