قاعدہ۳۸): اکثر شراح اعترا ضاتِ مضمرہ کے جواب کی ابتدا میں واوِ استینافیہ لاتے ہیں ۔
واوِ استینافیہ: وہ واؤ ہے جو ایسے کلام پر آتا ہے جس کا ما قبل والے کلام کے ساتھ کچھ تعلق نہیں ہوتا، اس کا ما بعد اکثر سوالِ مقدّر کا جواب ہوتا ہے(۱)۔
عطف کا معیار، واؤ کی تعیین
واوِ استینافیہ کو معلوم کرنے کا طریقہ: غور کرو کہِ اس واؤ کا ما بعد، ماقبل کے حکم میں داخل ہے یا نہیں ؟اگر داخل ہے تو وہ ’’عاطفہ‘‘ ہے، اور اِس کے لئے شرط یہ ہے کہ جنس کا عطف جنس پر ہو، یعنی [۱]مفرد کا عطف مفرد پر ہو [۲]اور جملہ اسمیہ کا عطف جملہ اسمیہ پر ہو، [۳]اور جملہ فعلیہ کا عطف جملہ فعلیہ پرہو[۴]اور ظرف کا عطف ظرف پر ہو(۲)۔
ـ اُس کا کوئی متعدی اثر نہیں ہے، جیسے: مبتدا وخبر کے عامل کے بابت نحاۃ کا اختلاف ہے، امام سیبویہؒ فرماتے ہیں کہ: مبتدا میں ابتداء (عواملِ لفظیہ غیر زائدہ سے خالی ہونا) عامل ہے، اور خبر کا عاملِ لفظی ’’مبتدا‘‘ ہے۔ دوسرا قول ہے کہ: مبتدا اور خبر میں سے ہر ایک دوسرے میں عامل ہے۔ تیسرا قول ہے کہ: مبتدا میں ابتدا (عاملِ معنوی سے خالی ہونا) عامل ہے، جب کے خبر میں مبتدا اور ابتداء دونوں عامل ہیں ۔ وھٰذا الخلاف لا طائل فیہ۔ (ابنِ عقیل ص:۱۷۳)
(۱) اِس کی مثال ’’متن وشرح میں بغرضِ مخصوص مستعمل الفاظ‘‘ کے قانون ۳۸؍کے ضمن میں آرہی ہے۔
واضح رہے یہ تعریف علمائے بیان کے نزدیک ہے۔ علمائے نحو کے نزدیک واو استینافیہ یا واوِ ابتدا، وہ واو ہے جو شروع کلام میں آئے، اور اِس سے پہلے بھی کلام ہو؛ لیکن کلامِ مابعد اور کلامِ ماقبل باہم لفظی تعلق نہ رکھتے ہوں ؛ خواہ کلامِ مابعد سوال مقدر کا جواب ہو یانہ ہو، جیسے: باری تعالیٰ کا قول: {إذا جَا.8ئَکَ المُنَافِقُوْنَ قَالُوْا إنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ۔ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ إنَّکَ لَرَسُوْلُہٗ۔ وَاللّٰہُ یَشْھَدُ إنَّ المُنَافِقِیْنَ لَکَاذِبُوْنَ}
(۲) اربابِ بلاغت ایک جملے کے دوسرے جملے پر عطف کرنے کو ’’وصل‘‘، اور ترکِ عطف کو ’’فصل‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں ، چناں چہ محسناتِ وصل میں سے یہ بات ہے کہ، دونوں جملے اسمیت میں مناسب ہوں ، بہ ایں طور کے دونوں اسمیہ ہوں ؛ یا فعلیت میں مناسب ہوں ، بہ ایں طور کہ دونوں فعلیہ ہوں ، اور ماضی، مضارع میں مناسب ہوں بہ ایں طور کہ دونوں جملے یا تو فعلِ ماضی ہوں یا مضارع؛ بہ ایں وجہ اگر دو جملوں میں یہ مناسَبت نہ ہو تو ’’فصل‘‘ (ترک عطف) اَولیٰ ہے، اِسی وجہ سے بابِ اشتغال (اضمار علیٰ شریطۃ التفسیر) میں مذکور ہے کہ: زیداً ضربت، وعمرواً اکرمتُہ میں دوسرے جملے کو فعلیہ بنانا راجح ہے؛ تاکہ فعل کا عطف فعل پر ہو، اور ھنداً اکرمتہا، وزیداً (وزیدٌ) ضربتہ میں دوسرے جملے کو اسمیہ وفعلیہ دونوں بنانا جائز ہے؛ کیوں کہ معطوف علیہ کو جملہ فعلیہ واسمیہ دونوں بناسکتے ہیں ۔ (اتمام الدرایہ:۱۲۶)