Deobandi Books

انوار المطالع فی ھدایات المطالع

188 - 214
	قاعدہ۳۸): اکثر شراح اعترا ضاتِ مضمرہ کے جواب کی ابتدا میں واوِ استینافیہ لاتے ہیں ۔
	واوِ استینافیہ: وہ واؤ ہے جو ایسے کلام پر آتا ہے جس کا ما قبل والے کلام کے ساتھ کچھ تعلق نہیں ہوتا، اس کا ما بعد اکثر سوالِ مقدّر کا جواب ہوتا ہے(۱)۔
عطف کا معیار، واؤ کی تعیین
	واوِ استینافیہ کو معلوم کرنے کا طریقہ: غور کرو کہِ اس واؤ کا ما بعد، ماقبل کے حکم میں داخل ہے یا نہیں ؟اگر داخل ہے تو وہ ’’عاطفہ‘‘ ہے، اور اِس کے لئے شرط یہ ہے کہ جنس کا عطف جنس پر ہو، یعنی [۱]مفرد کا عطف مفرد پر ہو [۲]اور جملہ اسمیہ کا عطف جملہ اسمیہ پر ہو، [۳]اور جملہ فعلیہ کا عطف جملہ فعلیہ پرہو[۴]اور ظرف کا عطف ظرف پر ہو(۲)۔
                                              
ـ اُس کا کوئی متعدی اثر نہیں ہے، جیسے: مبتدا وخبر کے عامل کے بابت نحاۃ کا اختلاف ہے، امام سیبویہؒ فرماتے ہیں کہ: مبتدا میں ابتداء (عواملِ لفظیہ غیر زائدہ سے خالی ہونا) عامل ہے، اور خبر کا عاملِ لفظی ’’مبتدا‘‘ ہے۔ دوسرا قول ہے کہ: مبتدا اور خبر میں سے ہر ایک دوسرے میں عامل ہے۔ تیسرا قول ہے کہ: مبتدا میں ابتدا (عاملِ معنوی سے خالی ہونا) عامل ہے، جب کے خبر میں مبتدا اور ابتداء دونوں عامل ہیں ۔ وھٰذا الخلاف لا طائل فیہ۔ (ابنِ عقیل ص:۱۷۳)
	(۱) اِس کی مثال ’’متن وشرح میں بغرضِ مخصوص مستعمل الفاظ‘‘ کے قانون ۳۸؍کے ضمن میں آرہی ہے۔
	واضح رہے یہ تعریف علمائے بیان کے نزدیک ہے۔ علمائے نحو کے نزدیک واو استینافیہ یا واوِ ابتدا، وہ واو ہے جو شروع کلام میں آئے، اور اِس سے پہلے بھی کلام ہو؛ لیکن کلامِ مابعد اور کلامِ ماقبل باہم لفظی تعلق نہ رکھتے ہوں ؛ خواہ کلامِ مابعد سوال مقدر کا جواب ہو یانہ ہو، جیسے: باری تعالیٰ کا قول: {إذا جَا.8ئَکَ المُنَافِقُوْنَ قَالُوْا إنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ۔ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ إنَّکَ لَرَسُوْلُہٗ۔ وَاللّٰہُ یَشْھَدُ إنَّ المُنَافِقِیْنَ لَکَاذِبُوْنَ}
	(۲) اربابِ بلاغت ایک جملے کے دوسرے جملے پر عطف کرنے کو ’’وصل‘‘، اور ترکِ عطف کو ’’فصل‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں ، چناں چہ محسناتِ وصل میں سے یہ بات ہے کہ، دونوں جملے اسمیت میں مناسب ہوں ، بہ ایں طور کے دونوں اسمیہ ہوں ؛ یا فعلیت میں مناسب ہوں ، بہ ایں طور کہ دونوں فعلیہ ہوں ، اور ماضی، مضارع میں مناسب ہوں بہ ایں طور کہ دونوں جملے یا تو فعلِ ماضی ہوں یا مضارع؛ بہ ایں وجہ اگر دو جملوں میں یہ مناسَبت نہ ہو تو ’’فصل‘‘ (ترک عطف) اَولیٰ ہے، اِسی وجہ سے بابِ اشتغال (اضمار علیٰ شریطۃ التفسیر) میں مذکور ہے کہ: زیداً ضربت، وعمرواً اکرمتُہ میں دوسرے جملے کو فعلیہ بنانا راجح ہے؛ تاکہ فعل کا عطف فعل پر ہو، اور ھنداً اکرمتہا، وزیداً (وزیدٌ) ضربتہ میں دوسرے جملے کو اسمیہ وفعلیہ دونوں بنانا جائز ہے؛ کیوں کہ معطوف علیہ کو جملہ فعلیہ واسمیہ دونوں بناسکتے ہیں ۔ (اتمام الدرایہ:۱۲۶)


x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 أنْوَارُ المَطَالِعْ 1 1
3 جملہ حقوق بحقِ ناشر محفوظ ہیں 2 2
4 مطالعۂ کتب کے راہ نُما اصول 3 2
5 فہرست مضامین 5 2
6 کلمات توثیق ودعا 15 2
7 تقریظ حضرت الاستاذ مولانا قاری عبدالستار صاحب (استاذ حدیث وقراء ت دارالعلوم وڈالی) 17 2
8 مقدمہ 19 2
9 کام کی نوعیت اور کتاب میں رعایت کردہ اُمور 21 8
10 ایک نظر یہاں بھی 22 8
11 مصنف کا مختصر تعارف 22 8
12 مصنفؒ کی دیگر تصانیف 23 8
13 وقت باری تعالیٰ کا ایک قیمتی تحفہ 24 8
14 نظام الاوقات 25 8
15 احتساب 25 8
16 کیا آپ بھی کچھ بننا چاہتے ہیں ؟ 26 8
17 طالب کا کردار، اقوالِ اکابر کی روشنی میں 28 8
18 عُلما، طلبا اور حُفاظ کی فضیلت 29 8
19 حفظِ متون 39 8
20 ملکۂ تحریر پیدا کرنے کا نسخہ 39 8
21 فوائد ثمینہ 39 8
22 پیش لفظ(از مؤلف) 43 2
24 القِسْمُ الأوّلُ في مُطالَعۃِ المُبتدِئیْنَ 47 1
25 معرب،مبنی 52 24
26 منصرف،غیر منصرف 52 24
27 معرفہ، نکرہ 56 24
28 مذکر، مؤنث 57 24
29 واحد، تثنیہ، جمع 59 24
30 [اعرابِ اسمائے متمکنہ] 61 24
31 عَناوین کے اعراب کی تعیین 63 24
32 ابتدائِ کلام میں واقع ہونے والے اسماء 65 24
33 درمیانی کلام میں واقع ہونے والا اسم اور اس کامابعد 66 24
34 تابع، متبوع کی تعیین 70 24
35 متعلقاتِ جملہ فعلیہ 74 24
36 تعیین اجزائِ جملہ فعلیہ 77 24
37 اجزاء جملہ فعلیہ واسمیہ کی شناخت 80 24
38 دو فعل ایک جگہ جمع ہوں 81 24
39 حروفِ معانی 82 24
40 قوانینِ مُہِمہْ 88 24
41 فوائد مختلفہ مہِمَّہ 90 24
42 کلماتِ ذو وجہین 90 24
43 مطالعۂ کتب کے بنیادی اصول 95 24
44 لغت دیکھنے کا طریقہ 96 24
45 القسمُ الثاني في مُطالعۃِ المتوسطِین 99 1
46 بسملہ و حمدلہ 101 45
47 تصلیہ: (صلاۃ علی النبي) 101 45
48 بوقت ابتدائے کتاب اسالیبِِ مصنفین 102 45
49 متن اور طرزِِ تحریر 106 45
50 شرح کی احتیاج اور اس کے دواعی 107 45
51 بہ وقتِ شرح رعایت کردہ اُمور 112 45
52 وہ امور جن کی بہ وقتِ شرح رعایت کی جاتی ہے 112 45
53 متن وشرح میں بہ غرضِ مخصوص مستعمل الفاظ 125 1
54 ماتن کی متانت 127 53
55 ماتن کا لفظِ ’’إعْلمْ‘‘اور اغراضِ ثلاثہ 130 53
56 شارح کی سخاوت 135 53
57 اسالیبِ شرح 135 53
58 فرائضِ شارحین 136 53
59 الفاظِ دفعِ وہم و اعتراض 138 53
60 مطالعۂ کتبِ عربیہ میں مُعِین ۳۸؍ ضروری قواعد وضوابط 143 53
61 وہ ضمائر جن کے مراجع بظاہر مذکور نہیں ہوتے 145 53
62 وجہِ تسمیہ، وجہِ عدول اور کلمۂ اِنَّمَا 147 53
63 شراح کا دلچسپ انداز استدلال اورکلماتِ جواب ودلیل 149 53
64 شرَّاح کا لفظِ ’’اِعلم‘‘ اور مقاصدِ اربعہ 158 53
65 طریقۂ استدلال اور مخالِفین پر رد 159 53
66 دورانِ شرح غیر کا قول نقل کرنے کی اَغراض 159 53
67 اجوبۂ مختلفہ اور اُن کی حیثیات 170 53
68 لفظِ ’’اَیْ‘‘ کا فلسفہ 174 53
69 فائدۂ نافعہ 182 53
70 شارحین کے مخصوص کلماتِ تعریض وکنایہ 184 53
71 عطف کا معیار، واؤ کی تعیین 188 53
72 خاتمۂ کتاب 193 1
73 مختصراً علم کی فضیلت 195 72
74 علوم وفنون کی اہمیت اور اُن میں آپسی ربط 196 72
75 علم المطالعہ کی اہمیت 197 72
77 ایک سچا طالبِ علم اور اُس کے صفات 198 72
78 آداب طالبِ علم 199 72
79 ایک کامیاب طالبِ علم 201 72
80 طریقۂ مطالعہ 203 72
81 ترقیم کے چند قواعد ورموز 207 72
82 رموز اوقاف 207 72
83 یومیہ محاسبہ 209 72
84 رموزِ عددی وکلماتِ مخففہ 210 72
85 کتاب کی فریاد اپنے حامِلین سے 211 72
86 اہم مآخذ ومراجع 212 72
Flag Counter