شارح کی سخاوت
اسالیبِ شرح
پہلے یہ معلوم کرنا چاہیے کہ، اسالیب ِشرح تین قسموں پر ہیں :
۱-شرح ’’بــ’قال:…، اقول:…‘‘، جیسے: شرح المقاصد، اور شرح الطوالع للاصفہاني اور شرح العضد۔
ایسی شروح میں یا تو پورامتن شرح کے امتیاز کے ساتھ لکھا جاتا ہے، اور کبھی بعضے نسخوں میں متن کو اِس خَیال سے نہیں لکھا جاتا کہ، وہ متن بلاامتیاز خود شرح میں مَندَرِج ہے۔
۲-شرح ’’بــ’قولُہٗ:…‘‘، جیسے: بخاری کی شرح لشہاب الدین الحافظ ابن حجر العسقلانيؒ، وللکرمانيؒ؛ وشرح السلم للقاضی محمد بن المبارک۔
ایسی شروح میں متن کا لکھنا ضروری نہیں ہے؛ بلکہ اِن شروح کا مقصد ایسے مقامات کو حل کرنا ہوتا ہے جس کی شرح کرنا ضروری ہیعلی حسبِ ضرورِیاتٍ ذکر تُہ منْ قَبلُ- ؛ لیکن اِس کے باوجود بعضے نسخوں میں کتاب لکھنے والے حضرات، ناظرین وقارئین کی سہولت کے خاطر پورے متن کو بتمامہ لکھتے ہیں ، یا متن کو حاشیہ میں لکھتے ہیں ، جیسا کہ آپ نے اکثر کتبِ مصریہ میں دیکھا ہوگا۔
یا اُس متن کو سطروں کے اندر ہی نشانی لگاکر لکھ دیتے ہیں ، جیسے:حمد اللّٰہ اور قاضي شرحَيْ السلم کو دیکھ لیجیے، جو ہندوستان کے مَطبَعوں سے مطبوع ہیں ۔
اِن شروحات کے فوائد کا کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا؛ کیوں کہ جس شخص کے پاس لاہور کا مطبوعہ ’’حاشیۂ زاھدیہ علی الموقف الثاني من شرح المواقف‘‘ ہے، جس پر حضرت مَولانا فضل حق رامپوری ؒ(۱) کا حاشیہ ہے، وہ بے چارہ حاشیہ اور متن کے دیکھنے میں ہی ورَق اُلٹتا رہتا ہے۔
(۱) منطق کی سند میں میرے استاذ عمی دام ظلہ کے استاذ ہیں ، بے نظیر عالم تھے، اعلیٰ اللہ درجتہ۔ مصنف