اجتماعی اسٹیج پر۔ یہ احتساب ہمارے دل میں آئندہ وقت کوضیاع سے بچا نے کے لیے ایک عملی جذبہ پیدا کرے گا؛ لیکن ارشاد نبوی ا:إِنَّ لِنفسکَ عَلیکَ حَقاً:تیرے نفس کا بھی تجھ پرحق ہے، اور فرمان نبوی ا: نفسُکَ مَطیُّک،فارْفُقْ بہا:تمھارا نفس تمھاری سواری ہے، اُس کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرو۔ کے پیش نظر صحت و اعتدال کا؛ اور فرمان نبوی ا: أَحبُّ الأَعمالِ إِلَی اللّٰہِ أَدوَمُھا وإِنْ قَلَّ: اللہ کو وہ عمل زیادہ محبوب ہے جودائمی ہو، اگرچہ مقدار میں کم ہو۔ کے پیش نظر مداوَمت کا لحاظ ضرور رہے۔
عزیزو!کتب بینی کے اِنہماک کے ساتھ ہی ساتھ اپنے آپ کوایامِ طالب علمی میں پیرویٔ سنن ونوافل کاخوب عادی بنائیں ، نیز خالی اوقات میں بہ جائے سیر وتفریح کے ذکر وتلاوت کی پابندی کریں ۔ تعطیل (جمعرات،جمعہ، عید الاضحی اور رمضان المبارک) کے موقع پر اپنے گھر جاکر لایعنی کاموں میں اوقات گزارنے کے بہ جائے تبلیغی مصروفیات میں اور خصوصاً شب بیداری میں حصہ لیجیے۔ (ملخص متاعِ وقت اور کاروانِ علم، مآرب الطلبہ)
بہ قول حضرت تھانوی: جب پڑھنے کے زمانے میں تم احادیث وقرآن کی ورق گَردانی کرتے چلے گئے، اور ترغیب وترہیب کا اِس وقت تمھارے دل پر اثر نہ ہوا، تو آئندہ کیا امید کی جاسکتی ہے کہ تم اِس سے متأثرہوں گے۔
ایک جگہ فرمایا: اصل چیزعمل ہے، بغیر عمل کے سب بے کار ہے، خواہ علمِ ظاہرہو یاعلمِ باطن؛ اصل فضیلت تو عمل ہی کو ہے، عمل ہی سے دین کی تکمیل ہوتی ہے۔ دیکھیے صحابۂ کرام کوکتابی علم کہاں تھا؟ مگر قبولیت اظہر من الشمس ہے، اِس کی وجہ یہی ہے کہ علم سے زیادہ ان کے پاس عمل تھا۔
کیا آپ بھی کچھ بننا چاہتے ہیں ؟
مطالعہ ایک فن ہے جوطالب علم کو یہ سکھاتاہے کہ، وہ کیسے غور وفکر کرے اور کیسے ملاحظہ کرے؟ اور کیسے تحلیل وتجزیہ کرے؟ نسق وترتیب کاکیا طریقہ ہواور نقطۂ نظر اور توجہ کیا ہو؟ وہ کیسے پھیلے ہوئے مباحث کو سمیٹے؟ علوم وفنون کا اسٹاک اور ذخیرہ کیوں کر کرے اور واقعات کو