علوم وفنون کی اہمیت اور اُن میں آپسی ربط
جملہ علوم وفنون(۱) میں اعلیٰ ،افضل اور اہم علم علمِ قرآن ہے، پھر علمِ حدیث، پھر علمِ فقہ؛ لیکن اِن چیزوں کا علم بغیر اصل اور قانون کے نا ممکن ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ جو بھی کام بغیر اصل اور قانون کے ہو وہ اچھا نہیں ہوتا؛ لہٰذا اِن ہر سہ اشیاء سے کماحقَّہٗ واقف ہونے کے لیے اصولِ تفسیر، اصولِ حدیث اور اصولِ فقہ کی اشد ضرورت ہے۔
پھر چوں کہ قرآن اور حدیث عربی زبان میں ہے؛ اِس لیے علم ادب کی بھی ضرورت پڑتی ہے جس میں علمِ صَرف، علمِ نحو، علمِ معانی، علمِ بیان، علمِ بدیع، علمِ عروض اور علمِ قوافی ہے۔
نیز قرآن میں عقائد ِ صحیحہ کی تعلیم دی گئی ہے، اِس کو اصحابِ علم کلام نے مفصل طریقے پرالگ مستقل فن بناکر مُدوَّن فرمایا ہے، اور اِس کے اندر اپنی حقانیت کا کامل ثبوت بھی دیا ہے؛ لیکن چوں کہ مذاہبِ باطلہ والوں نے اپنی عقولِ کا سِدہ سے جو فاسد اور باطل اعتراضات کیے ہیں ، جن سے اہلِ باطل، عوام الناس کو جلد پھِسلانا چاہتے تھے؛ لہٰذا ضرورت محسوس ہوئی کہ
(۱)اقسامِ علم: علم کی دو قسمیں ہیں علمِ شرعی، علمِ غیر شرعی۔
علمِ شرعی سے مراد وہ علم ہے جو بذاتہٖ مقصود ہو، اور غیر شرعی سے مراد وہ علم ہے جو بذاتہٖ مقصود نہ ہو؛ بلکہ علومِ مقصودہ کے لیے وسیلہ وذریعہ ہو۔
علمِ شرعی کی چار قسمیں ہیں :(۱)علمِ تفسیر (۲)علمِ حدیث (۳)علمِ فقہ (۴)علمِ توحید (علمِ کلام)۔
علمِ غیر شرعی کی تین قسمیں ہیں : (۱)علمِ ادب (۲)علمِ ریاضی (۳)علمِ عقلی۔
علمِ ادب بارہ علوم کے مجموعے کا نام ہے، جنہیں علامہ شامیؒ نے شیخی زادہ کے حوالے سے شمار کرایا ہے: (۱)لغت (۲)اشتقاق (۳)تصریف (۴)نحو (۵)معانی (۶)بیان (۷)بدیع (۸)عروض (۹)قوافی (۱۰)قرض شعر (۱۱) انشاء نثر (۱۲)کتابت۔
بعضے حضرات نے چودہ شمار کیے ہیں ، جس میں قرأت اور محاضرات (تاریخ) کا اضافہ کیا ہے۔
علمِ ریاضی دس علوم کو شامل ہیں :(۱)تصوف (۲)ھندسہ (۳)ہیئت (۴)علمِ تعلیمی (۵)حساب (۶)جبر (۷)موسیقی (۸)سیاست (۹)اخلاق (۱۰) تدبیرِ منزل۔
علمِ عقلی: منطق، جدل، اصولِ فقہ، اصولِ دین، علمِ الٰہی، علمِ طبعی، علمِ طب، میقات، فلسفہ، کیمیاں وغیرہ کا شمار اِس میں ہیں ۔ (مبادیاتِ فقہ: ۱۳، بحوالہ رد المختار ۱ ؍۲۵)