اُس سے کم ہو اُن پر رحم کرتا ہو، بڑوں کی تعظیم کرتا ہو، اخلاص، تواضع، عاجزی اور فِرَوتنی سے پیش آئے، مال کو حاجت سے زائد اپنے پاس نہ رکھے، اخلاق ردِیہ سے پاک ہو؛ بلکہ یہ چیز سب سے مقدم ہے(۱)، کتقدم الطہارۃ علی سائر شرائط الصلاۃ۔ نیز علم کے عِلاوہ کسی چیز کا طامع نہ ہو، اور دل میں یہ نیت ہو کہ علم پڑھ کر اُس کے موافق عمل کروں گا، اور نا واقِفوں کو بتاؤں گا، غافِلوں کو جگاؤں گا، گمراہوں کو صحیح اور سیدھا رَستہ بتاؤں گا۔
نیز شرائط ِ تحصیلِ علم میں سے یہ بھی ہے کہ، عَوائِق اور مَوانع کم ہوں ، یہاں تک کہ شادی شدہ نہ ہو، صاحب ِ اولاد نہ ہو، وطن کو چھوڑ دے،سستی کی بو تک نہ ہو، کھانا کم کھائے، پانی کم پیے، رات کو جاگے، موت کا خَیال دل میں نہ لائے، اور نہ موت سے خوف کرے(۲)، اور جب سے پڑھنا شروع کرے تو دل میں عزم با لجزم کرلے کہ: آخر عمر تک علم سیکھوں گا، قِیْلَ: الطَّلَبُ مِنَ المَہْدِ اِلیٰ اللَّحْدِ۔
نیز شرائط تحصیل علم میں سے یہ ہے کہ، ایسا ناصح معلم اور استاذ تجویز کرے جو اُس کو پڑھائی کے طریقے کے عِلاوہ نیک کاموں کی نصیحت کرتا رہے، اور بُرے کاموں سے روکتا رہے۔وہ استاذ طالب ِ دنیا نہ ہو، اور طالبِ علم کا خیر خواہ ہو، طالب کو اپنے آپ پر فضیلت دیتا ہو۔ طالب کو چاہیے کہ سب سے پہلے اَیسے استاذ کی تلاش کرے۔ ’’یُقَالُ اَوَّلُ مَایُذْکَرُ مِنَ المَرْئِ اُسْتَاذُہٗ‘‘۔
آداب طالبِ علم
طالب پر واجب ہے کہ استاذ کی توقیر کرے، دل سے اُس کی عزت و احترام کرے، اپنی پوری باگ ڈور استاذ کے حوالے کردے۔ یعنی تعلیم کے متعلق استاذ ِمُصلِح جو بھی ارشاد
(۱)وینبغي لطالبِ العلمِ أن یحترز عن الأخلاق الذمیمۃِِ؛ فإنہا کلابٌ معنویۃ۔ (تعلیم المتعلم:۵۱)
(۲)لعل المراد منہ: یہاں موت سے مراقبۂ موت مراد نہیں ہے؛ بلکہ موت کو مارے ڈر کے دل میں سوچتا نہ رہے کہ، یہ مقصود (علم) کے ذریعے وصول الیٰ اللہ کا مانع بن سکتا ہے؛ ورنہ بذاتِ خود موت کی یاد تو اعمالِ سیئہ واخلاقِ ذمیمہ کو دُور کرنے کا تِریاق ہے۔ مرتب