پہلے اُن کے فاسد قوانین سے واقفیت حاصل کرلیں اور اُن سے واقف ہو کر اُنھیں کے قوانین سے اُنھیں کے اُصولوں کا منھ توڑ اور دنداں شکن جواب دیں ؛ لہٰذا علمِ فلسفہ کا سیکھنا بھی ضروری سمجھا گیا؛کیوں کہ جب تک دوسرے مذہب کا علم ہی نہ ہو انسان اُس کا جواب نہیں دے سکتا، اگر جواب دے گا بھی تو وہ مُحکم جواب نہیں ہوگا۔
اور دوسرے کو جواب دینے کے لیے بولنے کی اشد ضرورت ہے؛ لہٰذا علمِ منطق و مناظرہ کا پڑھنا بھی ضروری ٹھہرا(۱)۔
اور علمِ حدیث شریف میں اسانید آتی ہیں ، جن پر بغیر علم اسماء الرجال کے پورا حاوی ہونا، اور راوی کا ثقہ غیر ثقہ معلوم ہونا، معروف و مجہول کا علم ہونا اور مدلِّس و منکَر وغیرہ کا معلوم ہونا نہیں ہوسکتا؛ اِس لیے علم اسماء الرجال کی ضرورت پڑی۔
علم المطالعہ کی اہمیت
یہ تمام فنون اہلِ فنون نے -جزا ہم اللہ جزائً حسناً- اپنی اپنی کتابوں میں درج فرمائے ہیں ؛اِس لیے اُن کتابوں سے ہم مستفید ہوکر اپنے مقصدِ اعلیٰ کو پہنچ سکتے ہیں ؛ لیکن اِن کتابوں سے استفادہ کرنا بغیر قانون و ضابطے کے نہیں ہو سکتا، اور وہ ضابطہ یہی ہے کہ فنِ مطالعہ پر واقفیت اور اُس کے ضوابط کا علم ہو؛ اِس لیے ارادہ ہوا کہ علم المطالعہ -جس پر تمام فنون
(۱)ہر سمجھ دار آدمی کوشش کرتا ہے کہ اپنے مقصد پر دلیل وبرہان پیش کرے، قیاس کرکے نتیجہ نکالے، غوروفکر میں ذہن کو خطا سے بچائے، یہی منطق ہے، جو ایک فطری علم ہے۔ اِس علم کا با ضابطہ ظہور حضرت ادریس ں سے ہوا، مخالفین کو ساکت وعاجز کرنے کے لیے بطور معجزہ اِس کا استعمال کیا گیا، پھر اُسے یونانیوں نے اپنایا، یونان کے رئیس ’’حکیم ارسطو‘‘ نے سب سے پہلے حکمت اور منطق کو مدون کیا، جو ۳۰۴/ ق: م تھا، اِسی وجہ سے یہ ’’معلمِ اول‘‘ کہا جاتا ہے۔ پھر ہارون ومامون کے عہد میں فلسفۂ یونانی عربی میں منتقل ہوا، تو شاہ منصور بن نوح سامانی نے ’’حکیم ابو نصر فارابی‘‘ متوفی ۳۳۹ھ کو دوبارہ اِس کی تدوین کا حکم دیا، اُنہوں نے تقریباً دو دَرجن کتابیں تصنیف کیں ؛ اِس لیے فارابی کو ’’معلمِ ثانی‘‘ کہا جاتا ہے؛ چوں کہ فارابی کی تحریریں منتشر تھیں ؛ اِس لیے سلطان مسعود کے حکم سے ’’شیخ ابو علی حسین بن عبداللہ بن سینا‘‘ متوفی ۴۲۸ھ نے تیسری بار باقاعدہ مدون کیا، اور فارابی کی تصانیف سے اقتباس کر کے ’’شفاء‘‘ وغیرہ کتابیں تصنیف کیں ؛ اِس لیے بو علی بن سینا کو ’’معلمِ ثالث‘‘ کہتے ہیں ، اور اُسی ہی کی تدوین شدہ حکمت ومنطق اِس وقت رائج ہے۔ (حالات المصنفین ص: ۶۴)