قاعدہ۲۶): کسی سوال کے جواب دینے کے بعد لاَیَخْفَی لُطْفُہ تحسینِ جواب کی طرف اشارہ ہوتا ہے(۱)۔
قاعدہ۲۷): مُدّعیٰ کے بعد کسی ایسے مصدر سے کلام کی ابتدا کرنا جس سے مشتق ہونے والا فعل خود پہلے مُدعیٰ میں مذکور ہے تو اِس سے سوالِ مقدّر کا جواب دینا مقصود ہوتا ہے(۲)۔
لفظِ ’’اَیْ‘‘ کا فلسفہ
قاعدہ۲۸): شراح کلمہ اَيْ کو کئی اغراض کے لیے استعمال کرتے ہیں (۳):
[۱]مُفسَّر، اگر کوئی لفظِ مشترک ہے تو قرائن کے موافق شارح اُس کے کسی ایک معنیٰ
(۱)جیسے: شارح تہذیب نے ماتن کے دعویٰ الحمد للّٰہ (تمام قسم کی تعریفات ذاتِ باری کے لیے منحصر ہیں ) اِس پر ہونے والے نقض -تمام قسم کی تعریفات باری تعالیٰ کے لیے ہی کیوں منحصر ہے؟- کی دلیل ذکر کرنے کے بجائے لفظ اللہ کی تعریف ہی اِس انداز سے فرمائی کہ مستقلاً اقامتِ دلیل کے بغیر خود دعویٰ ہی میں دلیل بھی آگئی، فرماتے ہیں : واللّٰہُ: علَم -علی الأصحِّ- للذاتِ الواجبِ الوُجودِ المُستجمِعِ لجَمیعِ صِفاتِ الکمالِ ((ضمناًبیانِ دلیل))، ولِدلالتہِ عَلَی ہٰذا الاِستِجماعِ صارَ الکلامُ فيْ قوَّۃٍ، أنْ یقالَ: الحَمدُ مُطلقاً مُنحصرٌ في حقِ منْ ہوَ مُستجمِعٌ لجَمیعِ صِفاتِ الکَمالِ منْ حیثُ کَکَ ((دعویٔ انحصار))، فَکانَ کدَعوَی الشيئِ بِبیِّنۃٍ وبُرہانٍ، ((ولا یَخفَی لُطفُہ))۔(شرح تہذیب:۲)
(۲)والصلاۃ والسلام علیٰ من أرسلہ، ش: واختار من بین الصفات ہذہ أي الرسالۃ فإن ((الرسالۃ)) فوق النبوۃ۔ (شرح تہذیب ۳)تفصیل قاعدہ ۱؍ کے حاشیے میں ملاحظہ فرمائیں ۔
ویَختصُّ مرادُہ بصِیغۃٍ لازمۃٍ:((مدعی)) بیانٌ لکونِ الأمرِ خَاصاً، یَعنِي یَختصُّ مُرادُ الامرِ -وہوَ الوُجوبُ- بصِیغۃٍ لازمۃٍ للمُرادِ۔ والغَرضُ منہ بَیانُ الاختِصاصِ((مصدر)) مِن الجَانبینِ، أي لایَکونُ الامرُ إلا للوُجوبِ، ولایَثبتُ الوجوبُ إلا منَ الأمرِ، دونَ الفِعلِ؛ فیکونُ نفیاً للاشتِراکِ والتَّرادفِ جَمیعاً۔وذلکَ (أي الإختصاصُ)…۔ (نور الانوار:۲۹)
نتیجہ: دلیل وحجت کو بیان کرنے کے بعد اُس سے لازم ہونے والی چیز کو ’’نتیجہ‘‘ کہتے ہیں ۔
مُدعیٰ: دلیل بیان کرنے سے پہلے اُسی نتیجہ کو ’’مُدعیٰ‘‘ کہا جاتا ہے، گویا نتیجہ اور مدعیٰ ذات کے اعتبارسے متحد ہیں ، فرق صرف اعتباری ہے۔ (دستور العلماء)
(۳)بعضے حضرات نے تفسیر بلفظِ ’’أيْ‘‘ اور ’’یعني‘‘ کے درمیان فرق بیان کیا ہے، کہ تفسیر بلفظ ’’أيْ‘‘ بیان ووضاحت کے لیے ہوتی ہے، اور تفسیر بلفظِ ’’یعني‘‘ سوال کو دفع کرنے اور شک وشبہ کو دور کرنے کے لیے ہوتی ہے؛ لیکن یہ فرق اکثری ہے اور ایک اصطلاح ہے۔ (بحر الرائق، بحوالہ مآرب)مرتب