Deobandi Books

انوار المطالع فی ھدایات المطالع

174 - 214
	قاعدہ۲۶): کسی سوال کے جواب دینے کے بعد لاَیَخْفَی لُطْفُہ تحسینِ جواب کی طرف اشارہ ہوتا ہے(۱)۔
	قاعدہ۲۷):  مُدّعیٰ کے بعد کسی ایسے مصدر سے کلام کی ابتدا کرنا جس سے مشتق ہونے والا فعل خود پہلے مُدعیٰ میں مذکور ہے تو اِس سے سوالِ مقدّر کا جواب دینا مقصود ہوتا ہے(۲)۔
لفظِ ’’اَیْ‘‘ کا فلسفہ
	قاعدہ۲۸): شراح کلمہ اَيْ   کو کئی اغراض کے لیے استعمال کرتے ہیں (۳):
	[۱]مُفسَّر، اگر کوئی لفظِ مشترک ہے تو قرائن کے موافق شارح اُس کے کسی ایک معنیٰ 
                                              
 	 (۱)جیسے: شارح تہذیب نے ماتن کے دعویٰ الحمد للّٰہ (تمام قسم کی تعریفات ذاتِ باری کے لیے منحصر ہیں ) اِس پر ہونے والے نقض -تمام قسم کی تعریفات باری تعالیٰ کے لیے ہی کیوں منحصر ہے؟- کی دلیل ذکر کرنے کے بجائے لفظ اللہ کی تعریف ہی اِس انداز سے فرمائی کہ مستقلاً اقامتِ دلیل کے بغیر خود دعویٰ ہی میں دلیل بھی آگئی، فرماتے ہیں : واللّٰہُ: علَم -علی الأصحِّ- للذاتِ الواجبِ الوُجودِ المُستجمِعِ لجَمیعِ صِفاتِ الکمالِ ((ضمناًبیانِ دلیل))، ولِدلالتہِ عَلَی ہٰذا الاِستِجماعِ صارَ الکلامُ فيْ قوَّۃٍ، أنْ یقالَ: الحَمدُ مُطلقاً مُنحصرٌ في حقِ منْ ہوَ مُستجمِعٌ لجَمیعِ صِفاتِ الکَمالِ منْ حیثُ کَکَ ((دعویٔ انحصار))، فَکانَ کدَعوَی الشيئِ بِبیِّنۃٍ وبُرہانٍ، ((ولا یَخفَی لُطفُہ))۔(شرح تہذیب:۲)
	(۲)والصلاۃ والسلام علیٰ من أرسلہ، ش: واختار من بین الصفات ہذہ أي الرسالۃ فإن ((الرسالۃ)) فوق النبوۃ۔ (شرح تہذیب ۳)تفصیل قاعدہ ۱؍ کے حاشیے میں ملاحظہ فرمائیں ۔
	 ویَختصُّ مرادُہ بصِیغۃٍ لازمۃٍ:((مدعی))  بیانٌ لکونِ الأمرِ خَاصاً، یَعنِي یَختصُّ مُرادُ الامرِ -وہوَ الوُجوبُ- بصِیغۃٍ لازمۃٍ للمُرادِ۔ والغَرضُ منہ بَیانُ الاختِصاصِ((مصدر)) مِن الجَانبینِ، أي لایَکونُ الامرُ إلا للوُجوبِ، ولایَثبتُ الوجوبُ إلا منَ الأمرِ، دونَ الفِعلِ؛ فیکونُ نفیاً للاشتِراکِ والتَّرادفِ جَمیعاً۔وذلکَ (أي الإختصاصُ)…۔ (نور الانوار:۲۹)
	نتیجہ: دلیل وحجت کو بیان کرنے کے بعد اُس سے لازم ہونے والی چیز کو ’’نتیجہ‘‘ کہتے ہیں ۔
	مُدعیٰ: دلیل بیان کرنے سے پہلے اُسی نتیجہ کو ’’مُدعیٰ‘‘ کہا جاتا ہے، گویا نتیجہ اور مدعیٰ ذات کے اعتبارسے متحد ہیں ، فرق صرف اعتباری ہے۔ (دستور العلماء)
	(۳)بعضے حضرات نے تفسیر بلفظِ ’’أيْ‘‘ اور ’’یعني‘‘ کے درمیان فرق بیان کیا ہے، کہ تفسیر بلفظ ’’أيْ‘‘ بیان ووضاحت کے لیے ہوتی ہے، اور تفسیر بلفظِ ’’یعني‘‘ سوال کو دفع کرنے اور شک وشبہ کو دور کرنے کے لیے ہوتی ہے؛ لیکن یہ فرق اکثری ہے اور ایک اصطلاح ہے۔ (بحر الرائق، بحوالہ مآرب)مرتب


x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 أنْوَارُ المَطَالِعْ 1 1
3 جملہ حقوق بحقِ ناشر محفوظ ہیں 2 2
4 مطالعۂ کتب کے راہ نُما اصول 3 2
5 فہرست مضامین 5 2
6 کلمات توثیق ودعا 15 2
7 تقریظ حضرت الاستاذ مولانا قاری عبدالستار صاحب (استاذ حدیث وقراء ت دارالعلوم وڈالی) 17 2
8 مقدمہ 19 2
9 کام کی نوعیت اور کتاب میں رعایت کردہ اُمور 21 8
10 ایک نظر یہاں بھی 22 8
11 مصنف کا مختصر تعارف 22 8
12 مصنفؒ کی دیگر تصانیف 23 8
13 وقت باری تعالیٰ کا ایک قیمتی تحفہ 24 8
14 نظام الاوقات 25 8
15 احتساب 25 8
16 کیا آپ بھی کچھ بننا چاہتے ہیں ؟ 26 8
17 طالب کا کردار، اقوالِ اکابر کی روشنی میں 28 8
18 عُلما، طلبا اور حُفاظ کی فضیلت 29 8
19 حفظِ متون 39 8
20 ملکۂ تحریر پیدا کرنے کا نسخہ 39 8
21 فوائد ثمینہ 39 8
22 پیش لفظ(از مؤلف) 43 2
24 القِسْمُ الأوّلُ في مُطالَعۃِ المُبتدِئیْنَ 47 1
25 معرب،مبنی 52 24
26 منصرف،غیر منصرف 52 24
27 معرفہ، نکرہ 56 24
28 مذکر، مؤنث 57 24
29 واحد، تثنیہ، جمع 59 24
30 [اعرابِ اسمائے متمکنہ] 61 24
31 عَناوین کے اعراب کی تعیین 63 24
32 ابتدائِ کلام میں واقع ہونے والے اسماء 65 24
33 درمیانی کلام میں واقع ہونے والا اسم اور اس کامابعد 66 24
34 تابع، متبوع کی تعیین 70 24
35 متعلقاتِ جملہ فعلیہ 74 24
36 تعیین اجزائِ جملہ فعلیہ 77 24
37 اجزاء جملہ فعلیہ واسمیہ کی شناخت 80 24
38 دو فعل ایک جگہ جمع ہوں 81 24
39 حروفِ معانی 82 24
40 قوانینِ مُہِمہْ 88 24
41 فوائد مختلفہ مہِمَّہ 90 24
42 کلماتِ ذو وجہین 90 24
43 مطالعۂ کتب کے بنیادی اصول 95 24
44 لغت دیکھنے کا طریقہ 96 24
45 القسمُ الثاني في مُطالعۃِ المتوسطِین 99 1
46 بسملہ و حمدلہ 101 45
47 تصلیہ: (صلاۃ علی النبي) 101 45
48 بوقت ابتدائے کتاب اسالیبِِ مصنفین 102 45
49 متن اور طرزِِ تحریر 106 45
50 شرح کی احتیاج اور اس کے دواعی 107 45
51 بہ وقتِ شرح رعایت کردہ اُمور 112 45
52 وہ امور جن کی بہ وقتِ شرح رعایت کی جاتی ہے 112 45
53 متن وشرح میں بہ غرضِ مخصوص مستعمل الفاظ 125 1
54 ماتن کی متانت 127 53
55 ماتن کا لفظِ ’’إعْلمْ‘‘اور اغراضِ ثلاثہ 130 53
56 شارح کی سخاوت 135 53
57 اسالیبِ شرح 135 53
58 فرائضِ شارحین 136 53
59 الفاظِ دفعِ وہم و اعتراض 138 53
60 مطالعۂ کتبِ عربیہ میں مُعِین ۳۸؍ ضروری قواعد وضوابط 143 53
61 وہ ضمائر جن کے مراجع بظاہر مذکور نہیں ہوتے 145 53
62 وجہِ تسمیہ، وجہِ عدول اور کلمۂ اِنَّمَا 147 53
63 شراح کا دلچسپ انداز استدلال اورکلماتِ جواب ودلیل 149 53
64 شرَّاح کا لفظِ ’’اِعلم‘‘ اور مقاصدِ اربعہ 158 53
65 طریقۂ استدلال اور مخالِفین پر رد 159 53
66 دورانِ شرح غیر کا قول نقل کرنے کی اَغراض 159 53
67 اجوبۂ مختلفہ اور اُن کی حیثیات 170 53
68 لفظِ ’’اَیْ‘‘ کا فلسفہ 174 53
69 فائدۂ نافعہ 182 53
70 شارحین کے مخصوص کلماتِ تعریض وکنایہ 184 53
71 عطف کا معیار، واؤ کی تعیین 188 53
72 خاتمۂ کتاب 193 1
73 مختصراً علم کی فضیلت 195 72
74 علوم وفنون کی اہمیت اور اُن میں آپسی ربط 196 72
75 علم المطالعہ کی اہمیت 197 72
77 ایک سچا طالبِ علم اور اُس کے صفات 198 72
78 آداب طالبِ علم 199 72
79 ایک کامیاب طالبِ علم 201 72
80 طریقۂ مطالعہ 203 72
81 ترقیم کے چند قواعد ورموز 207 72
82 رموز اوقاف 207 72
83 یومیہ محاسبہ 209 72
84 رموزِ عددی وکلماتِ مخففہ 210 72
85 کتاب کی فریاد اپنے حامِلین سے 211 72
86 اہم مآخذ ومراجع 212 72
Flag Counter