۰
پیش لفظ(از مؤلف)
الحَمْدُ لِلّٰہِ وَکَفیٰ وَالصَّلاَۃُ عَلیٰ رَسُوْلِہٖ المُصْطَفیٰ۔
وَبَعْدُ: فَاقُوْلُ بِتَوْفِیْقِ اللّٰہِ المَلِکِ العَلاَّمِ۔
طلبائے مدارسِ عربیہ سے گاہے گاہے بات کرنے کا موقعہ ہو تا ہے تو میں پوچھا کرتا ہوں : کہ آپ لوگ جو مطالعہ کرتے ہو آخر یہ تو بتلائیے کہ، مطالعہ کس چیز کا نام ہے؟ کیا کیفیت ہے اس کی؟ تو مسئول عنہ سے کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملتا، تو معلوم کیااور آخر یہی نتیجہ سمجھا کہ یہ مطالعہ مِن جُملہ اُن اشیاء میں سے ہے کہ، جس کا دنیا میں نام مشہور ہے، اور اس کی کُنہ اور ماہیت سے چند مخصوص طبقے کے عِلاوہ کوئی واقف نہیں ۔ تو دل میں یہ خَیال آیا کہ، علومِ شرعیہ کی طرف لوگوں کی توجہ نہیں رہی، مشکل سمجھ کر اعراض کرتے جا رہے ہیں ؛ حالاں کہ نفس الامر میں معاملہ ایسا نہیں جیسا لوگو ں کا خیال ہے۔
اِن علوم کا پڑھنا فی حد ذاتہٖ کوئی مقصود نہیں ؛ بلکہ مقصود بالذات ’’سعادت دارین‘‘ کی تحصیل ہے، اور یہ ایک بہت مشکل اور ضروری چیز ہے، اور یہ بغیر عملِ صالح کے ناممکن ہے، اور عمل کے لیے اُس کا علم ضروری ہے، جس کا بڑا ماخذ قرآن مجید ہے جس کو خدا نے با لکل آسان فرمایا ہے،(۱) اگر کچھ مشکل ہے تو چند موقوف علیہ کے ساتھ آسان ہو جاتا ہے۔اور یہ ظاہر ہے کہ آسان کا مَوقوف علیہ آسان ہی ہوتاہے؛ مگر مشکل سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اُس ڈھنگ اور داؤ سے واقف نہیں کہ جس کے ذریعے سے بہ آسانی مقصد تک رَسائی کرسکیں ، اور اُس کی مثال گُرز اٹھانے والے کے ساتھ دی جاتی ہے۔
الغرض، وہ ڈھنگ اور داؤ فنِ مطالعہ پر واقف ہو نا ہے؛ اس لیے یہ خَیال ہوا کہ، اِس قِسم کی ایک کتاب شائع کی جائے؛ تاکہ لوگ اُس سے فائدہ اٹھا کر جلد از جلد اپنے مقصود اصلی کی طرف توجہ کریں ۔
(۱) قال اللہگ: وَلَقَدْ یَسَّرْنَا القُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُدَّکِرْ۔