ایک نظر یہاں بھی
جیسا کہ ابھی بتایا گیا کہ، حضرت مصنف کے ذکر کردہ اصول مفید در مفید ہونے کے باوجود بڑے دقیق اور انتہائی غامض ہیں ؛ لہٰذا امثلہ کو پیش کرنے کے لیے وہی عبقری شخصیات نظر میں آتی ہیں ، جن کے متون وشروح کو واقعۃًمتن وشرح کہا جاسکتا ہے۔
بنا بریں قواعد کو سمجھانے کے لیے ہدایہ، شرح عقائد، شرح وقایہ، نورالانوار، شرحِ نخبۃ الفکر، شرحِ جامی، شرحِ تہذیب، شرحِ ابنِ عقیل، کافیہ اور شرحِ مأۃ عامل جیسی کتابوں سے مثالیں دی گئی ہیں ؛ کیوں کہ یہ وہ کتابیں ہیں جن کے ماتنین کی تعریف کا ہر لفظ قیدِ احترازی کا حامل ہے، اور ہر جملہ ’’دریا بہ کوزہ‘‘ کا مصداق ہے۔مزید برآں ان کے شارحین نے ماتنین کی عبارت پر علوم کے ایسے دریا بہائے ہیں جس کی تشریحات کے مطالعے سے ایک طالبِ صادق انگشت بدنداں رہ جاتا ہے۔
مصنف کا مختصر تعارف
مصنفِ کتاب کا نام مولانا حافظ حسین صاحب ہے، کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ فاضل مصنف، مولانا فضل حق رامپوریؒ کے بالواسطہ(عم محترم) شاگرد ہیں ، آپ کسی زمانے میں مدرسہ عالیہ امینیہ دہلی کے مدرِّس رہ چکے ہیں ،اور محدث مولانا ضیاء الحق صاحب کے ہم عصر ہیں ، بڑے متبحِّر عالم اور خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے،آپ کے استاذ خواجہ صوفی مفسر قرآن مولانا محمد شاہ صاحب (شاگرد مولانا سیف الرحمن صاحبؒ)تھے، آپ کا تعلُّق علمی گھرانے سے تھا،معقولات میں دست گاہِ کامل تھی، فنِ مطالعہ میں رُسوخ کا یہ عالَم تھا کہ قواعدپڑھنے والا عش عش کرنے لگتا ہے، مصنفین (ماتنین وشارحین) کی تعبیرات واسالیب کوپرکھنے کا ایسا ملکہ حاصل تھا کہ قاریٔ کتاب قواعد پڑھ کر انگشت بدنداں ہو جاتا ہے، دل فرحت وانبساط سے سرشار ہوجاتا ہے، اور زبان {وفوق کل ذی علم علیم} کا وِرد کرنے لگتی ہے۔ عبارتِ متقدمین کی گُتھیاں سلجھانے سے پریشان طالبِ علم کے چہرے سے اُداسی کے