عُلما، طلبا اور حُفاظ کی فضیلت
قالَ النبي ا: أُغدُ عالِماً، أو مُتعلِّماً، أو مُستمِعاً، أو مُحبّاً، ولا تکنْ الخَامسۃَ(عُلما سے دشمنی رکھنا)، فتُھلکَ۔ (الاعتدال في مراتب الرجال)
وقالَا: حَمَلَۃُ القرآنِ عُرَفائُ (چودھری) أھلِ الجنّۃِ یومَ القِیامۃِ۔ (رواہ الطبراني)
علم کی تعریف امام ابو حنیفہ کی زبانی: قالَ أبو حَنیفۃَ: الفِقہُ معرفۃُ النفسِ، ما لَہا ومَا عَلیہَا۔
وقالَ: مَا العلمُ إلاّ للعملِ بہِ، والعَملُ بہ: ترکُ العاجلِ للآجلِ۔ (تعلیم المتعلم:۳۰)
حضرت امامِ ابوحنیفہؒ کا ارشاد ہے: نفس کا اپنے لیے نفع بخش اور ضرر رساں چیزوں کے جاننے کا نام فقہ ہے۔
نیز فرمایا: کہ علم تو عمل ہی کے لیے ہے، اور علم پر عمل: آخرت کے لیے دنیا کو ترک کرنا ہے۔
خلوص: کمْ من عَملٍ یُتصوَّرُ منْ أَعمالِ الدنیَا، ویَصیرُ بحُسنِ النِّیۃِ منْ اَعمالِ الآخرۃِ۔ وکمْ منْ عملٍ یُتصوّرُ بصورۃِ أَعمالِ الآخرۃِ، ثُمَّ یَصیرُ منْ أَعمالِ الدنیَا بسوئِ النیَّۃِ۔ (تعلیم المتعلم:۳۲)
بہت سارے اعمال، دنیوی اعمال سمجھے جاتے ہیں ؛ لیکن وہ عامل کی حسنِ نیت سے اعمالِ آخرت میں شمار ہوتے ہیں ۔ اور بہت سے اعمال ظاہراً آخرت کے اعمال تصور کیے جاتے ہیں ؛ مگر بد نیتی کی وجہ سے دنیاوی اعمال میں شمار ہوتے ہیں ۔
تواضع:
إنَّ التَّواضعَ مِنْ خِصالِ المُتّقيْ
ء
وَبہِ التَّقيُّ إلَی المَعالِيْ یَرتقِيْ
وَالکِبرِیائُ، لرَبِّنَا صِفۃٌ بہِ
ء
مَخصوْصۃٌ فَتَجنَّبْہَا وَاتَّقيْ
بلا شبہ تواضع متقی اور پرہیز گار کے اوصافِ حمیدہ میں سے ہے، اِسی کے ذریعہ متقی