طریقۂ استدلال اور مخالِفین پر رد
دورانِ شرح غیر کا قول نقل کرنے کی اَغراض
قاعدہ۱۷): حضراتِ شراح مصنف کے متن کے بعد متصلاًیااس متن کے مطلب کو بیان کرنے کے بعد غیر کا قول نقل فرماتے ہیں :
[۱]اب اگر وہ قولِ حضرت حق تعالیٰ جل جلالہ ہے، یا کلام نبی آخر الزماں علیہ الصلاۃ والسلام ہے، یا کسی صحابی کا قول ہے، یا کسی فصیح عرب کا قول یا شعر(۱) ہے اور اُس کے ماقبل میں کوئی قانون یا تعریف ہے تو اُس سے مثال دینا مقصود ہوتا ہے(۲)، اور اگر ما قبل میں کوئی دعویٰ ہے تو مقصود ’’دلیلِ نقلی‘‘ بیان کرنا ہوتا ہے(۳)۔
۲)اگر وہ قول کسی صاحبِ فن یا اہلِ مذہب کا ہے تو وہاں پر دو میں سے ایک غرض ہو گی:
[۱]اُس کے قول سے استدلال کرنا[۲]اُس کے مذہب کو رد کرنا(۴)۔
ـ رَجلینِ أوْ رَجلٍ واِمرأتَینِ، عُدولاً کانُوْا أوْ غَیرَ عُدولٍ، أوْ مَحدودَینِ فیْ القذْفِ۔ ش: قالَ: اِعلمْ أنَّ الشَّھادۃَ شَرطٌ فیْ بابِ النِّکاحِ لِقَولہِ علیہِ السلامُ: لانِکاحَ إِلاَّ بِشھودٍ…۔(ہدایہ ۲؍ ۳۰۶)
(۱)لفظِ یقال کے بعد کسی قولِ عرب یا شعر کو ذکر کرنے کی غرض کا تذکرہ قاعدہ ۱۲؍ میں گزر چکا ہے۔
(۲) جیسے:نحات کا قول: من اسمِ موصول ذوی العقول کے لیے اور ما غیر ذوی العقول کے لیے آتا ہے؛ لیکن اِس کے بر خلاف کبھی ’’ما‘‘ ذوی العقول کے لیے، اور ’’من‘‘ غیر ذوی العقول کے لیے بھی آتا ہے، وأکثرُ ما تستعملُ في غیرِ العاقل، وقد تُستعملُ في العاقلِ، منہٗ قولہ تعالیٰ: {فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَائِ مَثْنَی} ((قول حضرت حق سبحانہ)) وَقولہم: سُبحانَ مَا سَخَّرکنّ لنَا((کلامِ عرب))۔ ومنْ بالعَکسِ ، فأکثرُ ما تُستعملُ في العاقلِ وقدْ تستعملُ في غیرِہ، کقولہ تعالیٰ: {وَمِنْہُمْ مَنْ یَمْشِيْ عَلَی أَرْبَعٍ، یَخْلُقُ اللّٰہُ مَا یَشَائُ}، ومنہ قول الشاعر((شاعر کا شعر)):
أسِربَ القَطا ہَلْ من یُعیرُ جَناحَہ
لعلِّي إلیٰ مَنْ قدْ ہَویتُ أَطیرُ
(شرح ابن عقیل:۱۳۰)
(۳)جیسے: (کتاب الصلح) م: قال: الصلحُ علیٰ ثلاثۃِ اضربٍ: صلحٌ معَ إقرارٍ، صُلح مع سُکوتٍ -وہو أنْ لایُقرّ المُدعیٰ علیہ ولایُنکر-، وصلحٌ مع اِنکارٍ۔ ش:وکلُّ ذلکَ جائزٌ((دعوی))؛ لإطلاقِ قَولہ تعالیٰ:{والصُّلْحُ خَیْرٌ}((دلیلِ نقلی))، ولقولہ علیہ السلامُ: کلُّ صلحٍ جائزٌ فیما بینَ المسلمِینَ إلاّ صُلحاً أحلَّ حراماً أو حرَّمَ حلالاً((دلیلِ نقلی))۔ (ہدایہ ۳؍۲۴۵)
(۴)جیسے: صاحبِ ہدایہؒ نے دایہ کے اوپر بچہ کی کیا ذمہ داریاں ہوں گی؟ اِس کے ضمن میں امام محمدؒ کا قول نقل غ