Deobandi Books

انوار المطالع فی ھدایات المطالع

195 - 214
مختصراً علم کی فضیلت
	فصل: فِي بَیَانِ فَضِیْلَۃِ العِلْمِ عَلَی سَبِیْلِ الاِخْتِصَارِ۔
	علم کے متعلق ہر ذی عقل کی رائے یہی ہے کہ، علم بہت اچھی چیز ہے، تمام دنیا والے عالِم کی عزت کرتے ہیں ، خواہ اُس کے علم میں حقیر ہی چیز کیوں نہ ہو، چاہے وہ فنِ کتابت کا عالم ہو، یا فنِ دَباغت کا، یا فن طِبابت کا؛خواہ وہ دینی علم ہو یا دنیوی، قَالَ تَعَالیٰ: {ہَلْ یَسْتَوِيْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ}(۱)۔نیز حدیث شریف میں بھی علمِ دین کی بہت فضیلت آئی ہے؛ بلکہ سعادتِ ابدیہ کا مدار ہی دو چیزوں پر ہے: علم اور عمل؛ جس میں خود عمل کا مدار بھی علم پر ہے، ساری دنیا ترقی کی طالب ہے، حالاں کہ اصل ترقی کا مدار علم پر ہے، گویا علم بہت اہم چیز ہے(۲)۔
                                              
	 (۱){أَمَّنْ ھُوَ قَانِتٌ اٰنَائَ اللَّیْلِ سَاجِداً وَقَائِماً یَحْذَرُ الآخِرَۃَ وَیَرْجُوْا رَحْمَۃَ رَبِّہِط قُلْ ھَلْ یَسْتَوِيْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لا یَعْلَمُوْنَط} (الزمر، آیت:۹) {إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُوْلُوْ اَلأَلْبَابِ} بھلا جو شخص (۱)اوقاتِ شب میں قیام کی حالت میں عبادت کر رہا ہو (۲)آخرت سے ڈرتا ہو (۳)اور اپنے پرور دگار کی رحمت کی امید کر رہا ہو۔ آپ کہہ دیجیے کہ: کیا علم والے اور جہل والے دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ وہی لوگ نصیحت پکڑتے ہیں جو اہلِ عقل ہیں ۔
	اِس جگہ علما کی تین صفات بیان کرنے کے بعد حضرت تھانویؒ رقمطراز ہیں : ’’صاحبِ عمل صاحبِ علم ہے، اور مُعرض عن العمل صاحبِ جہل ہے‘‘۔ اللہ رب العزت ہمیں علمائے آخرت میں سے بنائے، اور زبان کے عالم، دل کے جاہل بننے سے حفاظت فرمائے۔ (آمین)
	 (۲)یاد رہے کہ، وہ علم جس کا حاصل کرنا ہر شخص پر واجب ہے وہ علمِ معاش نہیں ؛ بلکہ علمِ دین ہے، جس سے انسان کے عقائد، معاملات، معاشرت اور اخلاق درست ہوتے ہوں ، جس کا ثمرہ دنیا میں {أوْلٰئِکَ عَلَی ہُدیً مِنْ رَّبِّہِمْ} کہ یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں ، اور آخرت میں {أوْلٰئِکَ ہُمْ المُفْلِحُوْنَ} کی بشارت ہے، کہ اِنہیں کے لیے کامیابی ہے؛ لہٰذا اِس تعلیم کا وجوب نقلاً وعقلاً ظاہر ہے۔
	نقلاً تو بہ ایں معنیٰ کہ اِس علم کے بابت طَلبُ العلمِ فَریضۃٌ عَلَی کلِّ مُسلمٍ، طَلبُ الفِقہِ حَتمٌ واجبٌ عَلَی کلِّ مُسلمٍ، یَا أیُّہا الناسُ عَلَیکم بالعلمِ۔ علمِ دین اور فقہ کا طلب کرنا ہر مسلمان پر یقیناً واجب ہے، اے لوگوں ! علم کو لازم پکڑ لو، جو علم نہ سیکھے اُس کے لیے ہلاکت ہے، اور ویل لمن لا یعلم وغیرہ روایت ہیں ۔ اور دلیلِ نقلی یہ ہے کہ، عقائد واعمال کی اصلاح فرض ہے، اور وہ موقوف ہے علم کی تحصیل پر، اور فرض کا موقوف علیہ فرض ہوتا ہے، پس تحصیلِ علم بھی فرض ہوا۔ (تحفۃ العلماء۱؍۵۳۱) 


x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 أنْوَارُ المَطَالِعْ 1 1
3 جملہ حقوق بحقِ ناشر محفوظ ہیں 2 2
4 مطالعۂ کتب کے راہ نُما اصول 3 2
5 فہرست مضامین 5 2
6 کلمات توثیق ودعا 15 2
7 تقریظ حضرت الاستاذ مولانا قاری عبدالستار صاحب (استاذ حدیث وقراء ت دارالعلوم وڈالی) 17 2
8 مقدمہ 19 2
9 کام کی نوعیت اور کتاب میں رعایت کردہ اُمور 21 8
10 ایک نظر یہاں بھی 22 8
11 مصنف کا مختصر تعارف 22 8
12 مصنفؒ کی دیگر تصانیف 23 8
13 وقت باری تعالیٰ کا ایک قیمتی تحفہ 24 8
14 نظام الاوقات 25 8
15 احتساب 25 8
16 کیا آپ بھی کچھ بننا چاہتے ہیں ؟ 26 8
17 طالب کا کردار، اقوالِ اکابر کی روشنی میں 28 8
18 عُلما، طلبا اور حُفاظ کی فضیلت 29 8
19 حفظِ متون 39 8
20 ملکۂ تحریر پیدا کرنے کا نسخہ 39 8
21 فوائد ثمینہ 39 8
22 پیش لفظ(از مؤلف) 43 2
24 القِسْمُ الأوّلُ في مُطالَعۃِ المُبتدِئیْنَ 47 1
25 معرب،مبنی 52 24
26 منصرف،غیر منصرف 52 24
27 معرفہ، نکرہ 56 24
28 مذکر، مؤنث 57 24
29 واحد، تثنیہ، جمع 59 24
30 [اعرابِ اسمائے متمکنہ] 61 24
31 عَناوین کے اعراب کی تعیین 63 24
32 ابتدائِ کلام میں واقع ہونے والے اسماء 65 24
33 درمیانی کلام میں واقع ہونے والا اسم اور اس کامابعد 66 24
34 تابع، متبوع کی تعیین 70 24
35 متعلقاتِ جملہ فعلیہ 74 24
36 تعیین اجزائِ جملہ فعلیہ 77 24
37 اجزاء جملہ فعلیہ واسمیہ کی شناخت 80 24
38 دو فعل ایک جگہ جمع ہوں 81 24
39 حروفِ معانی 82 24
40 قوانینِ مُہِمہْ 88 24
41 فوائد مختلفہ مہِمَّہ 90 24
42 کلماتِ ذو وجہین 90 24
43 مطالعۂ کتب کے بنیادی اصول 95 24
44 لغت دیکھنے کا طریقہ 96 24
45 القسمُ الثاني في مُطالعۃِ المتوسطِین 99 1
46 بسملہ و حمدلہ 101 45
47 تصلیہ: (صلاۃ علی النبي) 101 45
48 بوقت ابتدائے کتاب اسالیبِِ مصنفین 102 45
49 متن اور طرزِِ تحریر 106 45
50 شرح کی احتیاج اور اس کے دواعی 107 45
51 بہ وقتِ شرح رعایت کردہ اُمور 112 45
52 وہ امور جن کی بہ وقتِ شرح رعایت کی جاتی ہے 112 45
53 متن وشرح میں بہ غرضِ مخصوص مستعمل الفاظ 125 1
54 ماتن کی متانت 127 53
55 ماتن کا لفظِ ’’إعْلمْ‘‘اور اغراضِ ثلاثہ 130 53
56 شارح کی سخاوت 135 53
57 اسالیبِ شرح 135 53
58 فرائضِ شارحین 136 53
59 الفاظِ دفعِ وہم و اعتراض 138 53
60 مطالعۂ کتبِ عربیہ میں مُعِین ۳۸؍ ضروری قواعد وضوابط 143 53
61 وہ ضمائر جن کے مراجع بظاہر مذکور نہیں ہوتے 145 53
62 وجہِ تسمیہ، وجہِ عدول اور کلمۂ اِنَّمَا 147 53
63 شراح کا دلچسپ انداز استدلال اورکلماتِ جواب ودلیل 149 53
64 شرَّاح کا لفظِ ’’اِعلم‘‘ اور مقاصدِ اربعہ 158 53
65 طریقۂ استدلال اور مخالِفین پر رد 159 53
66 دورانِ شرح غیر کا قول نقل کرنے کی اَغراض 159 53
67 اجوبۂ مختلفہ اور اُن کی حیثیات 170 53
68 لفظِ ’’اَیْ‘‘ کا فلسفہ 174 53
69 فائدۂ نافعہ 182 53
70 شارحین کے مخصوص کلماتِ تعریض وکنایہ 184 53
71 عطف کا معیار، واؤ کی تعیین 188 53
72 خاتمۂ کتاب 193 1
73 مختصراً علم کی فضیلت 195 72
74 علوم وفنون کی اہمیت اور اُن میں آپسی ربط 196 72
75 علم المطالعہ کی اہمیت 197 72
77 ایک سچا طالبِ علم اور اُس کے صفات 198 72
78 آداب طالبِ علم 199 72
79 ایک کامیاب طالبِ علم 201 72
80 طریقۂ مطالعہ 203 72
81 ترقیم کے چند قواعد ورموز 207 72
82 رموز اوقاف 207 72
83 یومیہ محاسبہ 209 72
84 رموزِ عددی وکلماتِ مخففہ 210 72
85 کتاب کی فریاد اپنے حامِلین سے 211 72
86 اہم مآخذ ومراجع 212 72
Flag Counter