مختصراً علم کی فضیلت
فصل: فِي بَیَانِ فَضِیْلَۃِ العِلْمِ عَلَی سَبِیْلِ الاِخْتِصَارِ۔
علم کے متعلق ہر ذی عقل کی رائے یہی ہے کہ، علم بہت اچھی چیز ہے، تمام دنیا والے عالِم کی عزت کرتے ہیں ، خواہ اُس کے علم میں حقیر ہی چیز کیوں نہ ہو، چاہے وہ فنِ کتابت کا عالم ہو، یا فنِ دَباغت کا، یا فن طِبابت کا؛خواہ وہ دینی علم ہو یا دنیوی، قَالَ تَعَالیٰ: {ہَلْ یَسْتَوِيْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ}(۱)۔نیز حدیث شریف میں بھی علمِ دین کی بہت فضیلت آئی ہے؛ بلکہ سعادتِ ابدیہ کا مدار ہی دو چیزوں پر ہے: علم اور عمل؛ جس میں خود عمل کا مدار بھی علم پر ہے، ساری دنیا ترقی کی طالب ہے، حالاں کہ اصل ترقی کا مدار علم پر ہے، گویا علم بہت اہم چیز ہے(۲)۔
(۱){أَمَّنْ ھُوَ قَانِتٌ اٰنَائَ اللَّیْلِ سَاجِداً وَقَائِماً یَحْذَرُ الآخِرَۃَ وَیَرْجُوْا رَحْمَۃَ رَبِّہِط قُلْ ھَلْ یَسْتَوِيْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لا یَعْلَمُوْنَط} (الزمر، آیت:۹) {إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُوْلُوْ اَلأَلْبَابِ} بھلا جو شخص (۱)اوقاتِ شب میں قیام کی حالت میں عبادت کر رہا ہو (۲)آخرت سے ڈرتا ہو (۳)اور اپنے پرور دگار کی رحمت کی امید کر رہا ہو۔ آپ کہہ دیجیے کہ: کیا علم والے اور جہل والے دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ وہی لوگ نصیحت پکڑتے ہیں جو اہلِ عقل ہیں ۔
اِس جگہ علما کی تین صفات بیان کرنے کے بعد حضرت تھانویؒ رقمطراز ہیں : ’’صاحبِ عمل صاحبِ علم ہے، اور مُعرض عن العمل صاحبِ جہل ہے‘‘۔ اللہ رب العزت ہمیں علمائے آخرت میں سے بنائے، اور زبان کے عالم، دل کے جاہل بننے سے حفاظت فرمائے۔ (آمین)
(۲)یاد رہے کہ، وہ علم جس کا حاصل کرنا ہر شخص پر واجب ہے وہ علمِ معاش نہیں ؛ بلکہ علمِ دین ہے، جس سے انسان کے عقائد، معاملات، معاشرت اور اخلاق درست ہوتے ہوں ، جس کا ثمرہ دنیا میں {أوْلٰئِکَ عَلَی ہُدیً مِنْ رَّبِّہِمْ} کہ یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں ، اور آخرت میں {أوْلٰئِکَ ہُمْ المُفْلِحُوْنَ} کی بشارت ہے، کہ اِنہیں کے لیے کامیابی ہے؛ لہٰذا اِس تعلیم کا وجوب نقلاً وعقلاً ظاہر ہے۔
نقلاً تو بہ ایں معنیٰ کہ اِس علم کے بابت طَلبُ العلمِ فَریضۃٌ عَلَی کلِّ مُسلمٍ، طَلبُ الفِقہِ حَتمٌ واجبٌ عَلَی کلِّ مُسلمٍ، یَا أیُّہا الناسُ عَلَیکم بالعلمِ۔ علمِ دین اور فقہ کا طلب کرنا ہر مسلمان پر یقیناً واجب ہے، اے لوگوں ! علم کو لازم پکڑ لو، جو علم نہ سیکھے اُس کے لیے ہلاکت ہے، اور ویل لمن لا یعلم وغیرہ روایت ہیں ۔ اور دلیلِ نقلی یہ ہے کہ، عقائد واعمال کی اصلاح فرض ہے، اور وہ موقوف ہے علم کی تحصیل پر، اور فرض کا موقوف علیہ فرض ہوتا ہے، پس تحصیلِ علم بھی فرض ہوا۔ (تحفۃ العلماء۱؍۵۳۱)