فائدہ:وہ الفاظ جن کے ذریعے شرَّاح فوائدِ قیود کی وضاحت کرتے ہیں ، وہ حسبِ ذیل ہیں ۔
(۱) قَیَّدَ بِہٖ (۲) اِنَّمَا قَیَّدَ بَہٖ (۳) وَاحْتَرَزَ بِہٖ (۴) بِہٰذَا القَیْدِ اِحْتَرَزَ۔
۳-مقصدِ مصنف اور مرادِ مصنف کو بالتفصیل واضح کریں ۔
۴-ماتن پر ہونے والے وہم یا اعتراض کو دفع کریں ۔
اِن اہم مقاصد کو ذکر کرنے کے لیے شراح کے مختلف پیرائے ہوتے ہیں ، تفصیل حسبِ ذیل ہے:
الفاظِ دفعِ وہم و اعتراض
شارحین الفاظ کی تحقیق سے فارغ ہوکر مصنف کی مراد اور مقصود کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں ۔ اِس کے بعد سامع کو پیش آنے والے وہم یا اعتراض کو دفع کرتے ہیں ۔ اِس وقت یا تو:
فائدہ۱-: شارحین مصنف پر ہونے والے اُس نقض کو صراحۃً بیان کرتے ہیں (۱)، جن کے الفاظ مندرجۂ ذیل ہیں :
(۱) اسالیبِ کتبِ فقہ اور خصوصیاتِ ھدایہ
متقدمین مصنفین کی یہ عادت رہی ہے کہ، وہ کسی اعتراض یا جواب کے ضعف وقوت کی طرف مخصوص الفاظ سے اشارہ کرتے ہیں ۔ چناں چہ لفظِ ’’تأمل‘‘ سے قوی جواب کی طرف اشارہ ہوتا ہے، ’’فتأمل‘‘ سے جوابِ ضعیف کی طرف، اور ’’فلیتأمل‘‘ سے جوابِ اضعف کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ اور ’’فیہ بحث‘‘ عام عبارت ہے جو مستعمل فیہ مقام میں کسی تحقیق یا فساد کی طرف مشیر ہوتی ہے، اور ’’فیہ نظر‘‘ جہاں فساد لازم آتا ہو وہاں استعمال کرتے ہیں ۔
جہاں سوال اقویٰ ہوتا ہے وہاں ’’لقائل…‘‘ کہتے ہیں ، اور اِس کے جواب میں ’’اقول، نقول‘‘ لاتے ہیں ۔ اگر سوال ضعیف ہوتو ’’فإن قیل‘‘ کہتے ہیں ، اور جواب میں ’’اجیب یا یقال‘‘ لاتے ہیں ۔ اگر سوال ’’اضعف‘‘ ہوتو ’’لایقال‘‘ کہتے ہیں ، اور جواب میں ’’لأنا نقول‘‘ لاتے ہیں ۔ (آئینہ اصطلاحات العلوم)
فائدہ: ’’الصواب‘‘ خلافِ خطا کو کہتے ہیں ، اور اِن دونوں کا استعمال مجتہدات میں ہوتا ہے۔ اور ’’باطلٌ‘‘ خلافِ حق کو کہتے ہیں ، اور اِن دونوں کا استعمال معتقدات میں ہوتا ہے۔ (قرۃ العیون) مرتب
(۲)ہدایہ میں ’’فان قیل، قلت کذا؛ إن قال قائل، فنقول‘‘ سے سوال مقدر کا طریقہ اختیار کیا گیا غ