صرف کردینا، یہ نا جا ئز؛ بلکہ حرام، قطعی حرام ہے؛ لیکن یاد رہے کہ، یہ فعل خود اُس پڑھنے والے کی اِس نیت سے حرام ہوا ہے، نہ کہ بہ ذاتِ خود علم کی بنا پر یہ حرمت آئی ہے۔
فائدہ: علومِ فلسفیہ کا مطالعہ دو شرطوں کے ساتھ حلال ہے:
[۱] اپنا اسلامی عقیدہ پکا ہو، شریعت شریفہ پر اُس کا ذہن خوب راسخ اور پختہ ہو۔
[۲] شریعت کے مخالف جو مسائل ہیں اُن کی طرف نہ بڑھے، اگر بڑھے تو اِس نیت سے کہ اِس پر رد کروں گا۔
ملاحظہ: علومِ فلسفیہ کے مطالعے کی حلت اُن لوگوں کے لیے ہے کہ جن کو اُن کا ذہن، وقت اور عمر مُساعَدت کرے؛ ورنہ تو قدر ِ اہم پر اکتفا کرے، یعنی قَدْرُ مَایَحْتَاجُ اِلَیْہِ فِي التَّقَرُّبِ اِلیٰ اللّٰہِ۔ اور مَا لاَبُدَّ مِنْہٗ فِي المَہْدِ وَالمَعَادِ وَالمُعَامَلاتِ وَالعِبَادَاتِ وَالاَخْلاَقِ وَالعَادَاتِ۔
ایک کامیاب طالبِ علم
۱)طالب کوچاہیے کہ، اپنے شُرکائے درس سے علمی مذاکرہ و مناظرہ کرے، واہیات، ہنسی مِزاح، لَہو لَعب سے کلی طور پر اجتناب کرے۔ لِمَا قِیْلَ: العِلْمُ غَرْسٌ، وَمَا.4ئُہٗ دَرْسٌ؛ لیکن ہر کسی سے مناظرہ نہ کرے؛ بلکہ کسی مُنصِف، خوش خُلق، سلیم الطبع سے بہ غرضِ طلبِ ثواب مناظرہ کرے۔
۲)طالب علم کو چاہیے کہ دقائقِ علوم میں تامل کرے، آج کا کام کل پر نہ چھوڑے۔ اور طالب علم کو چاہیے کے ہر وقت اپنے پاس پنسِل اور کاغَذ رکھے، کہ جو فوائد سُنے فوراًلکھ لے، اور زوائد سے استنباط کرے ؛ فَإِنَّ العِلْمَ صَیْدٌ وَ الکِتَابَۃُ قَیْدٌ۔ اور لکھے ہوئے نکات و جواہر کو ذِہن نشین کرلے؛ اِس لیے کہ: العِلْمُ فَي الخَوَاطِرِ لاَ مَا اُوْدِعَ فِي الدَّفَاتِرِ؛ بلکہ لکھنے سے غرض ہی یہی ہوتی ہے کہ جب بھول جائے تو دیکھ لیا کرے۔
۳)طالب کو مراتبِ فنون کی مُراعات اشد ضروری ہے، کہ ہر علم کے لیے اپنی ایک حد ہے، اُس سے تجاوُز نہ کرے، مثلاً :فنِ نحو میں اقامت براہین وعِلل اور دلائل کی طرف توجُّہ نہ