الجَمہورَ لِنکتۃٍٍ جائِزۃٌ، یعنی کسی نکتہ کے پیشِ نظر جمہور کی مخالفت جائز ہے۔
اگر لفظِ إنّما کسی قاعدہ، یا قاعدے کی کسی قید کے بعد ہو؛ یا کسی حدْورسْم، یاحد ورسم کی قیودات میں سے کسی قید کے بعد ہو تو وہاں پر کسی قیدِ احترازی کو بیان کرنا مقصود ہوتا ہے(۱)۔
فائدہ: کبھی الفاظ کے نکات کو بیان کرنے کے لیے بھی لفظِ إنّما کو استعمال کرتے ہیں ، إلاّ أنّہٗ قَلِیلٌ جِدًّا۔
اِن جگہوں کے علاوہ لفظِ إنّمَا کسی سوالِ مقدر کا جواب ہوتا ہے ،جو جواب، دلیل کے ساتھ بعد میں دیا جاتا ہے۔
شراح کا دلچسپ انداز استدلال اورکلماتِ جواب ودلیل
قاعدہ۳-: ہر وہ دلیل جومصطلحاتِ فن میں سے کسی لفظِ مصطلح کی تعریف کے بعد
ـ مشہور:’’ مَا یُفیدُ فَائدَۃً تَامَّۃً‘‘ سے اعراض اِس لیے کیا ہے کہ، تعریفِ مشہور میں ’’فائدۃ‘‘سے اگر ’’فائدۂ تامہ جدیدہ‘‘ مراد لیں تو قائل کا قول: ’’السَّمائُ فَوقَنَا، الأرْضُ تَحْتَنَا‘‘ میں کوئی فائدۂ جدیدہ حاصل نہیں ہوا، اور اگر فائدۂ تامہ شاملہ کاملہ مراد لیں تو ’’ضَرَبَ زیدٌ‘‘ جیسی مثال مرکبِ تام کی تعریف میں داخل نہ ہوگی؛کیوں کہ یہ مثال فائدۂ ناقصہ دے رہی ہے؛ اِس لیے کہ فائدۂ تامہ تو جب ہوتا کہ یوں کہا جائے : ضَربَ زَیدٌ عَمرواً فيْ الدَّارِ،اِس کے باوجود ضربَ زیدٌ کا مرکب تام کی مثال ہونا مسلّم ہے، اِسی وجہ سے شارح نے جمہور سے ہٹ کر تعریف کی ہے، کہ اِن دونوں مثالوں میں آخر متکلم کا چپ رہنا تو صحیح ہے (وجہ عدول)۔
(۱) جیسے: الالھامُ:(المفسَّر بالقائِ معنیً فیْ القلبِ بطریقِ الفَیضِ) لیسَ منْ أسبابِ المَعرفۃِ بصحَّۃِ الشَّيئِ عندَ أھلِ الحقِّ۔
أَرادَ بالمعنَی مَا یُقابلُ اللفظَ، و((إنَّما قیَّدَ)) الإلقائَ بہِ (بالمعنی) لفائدتَینِ: الأُوْلیٰ: الاحترازُ عن الوَسوسۃِ الشَّیطانیۃِ، الثانیۃُ: الاحترازُ عن العلمِ الحاصلِ بالاکتِسابِ۔ قولہٗ: الفیضُ: الفیضُ إِعطائُ الخیرِ الکثیرِ بلااِستحقاقٍ وعوَضٍ۔ (شرحِ عقائد مع نبراس)
یعنی وہ الہام جس کی تفصیل دل میں فیض کے طور پر کسی بات کے ڈالنے سے کی جاتی ہے، اہل حق کے نزدیک شیٔ کی صحت کے اسبابِ علم میں سے نہیں ہیں ۔ ہاں ! الہام کے ایک معنیٰ إعلام بإنزال الکتب وإرسال الرسل بھی ہے، جیسا کہ باری تعالیٰ کا فرمان: {فألھمھا فجورھا وتقوٰھا} یعنی ہر نفس کو انزالِ کتب وارسالِ رسل کے ذریعہ خیر وشر سے آگاہ فرمایا، اِس معنیٰ کے اعتبار سے الہام بلا شبہ سببِ علم اور ذریعۂ یقین ہے۔