ایک طریقہ: بہ قول حضرت امام شافعیؒ: العلمُ صَیدٌ، والکِتابۃُ قیدٌ، کہ علم کی مثال ایک شکار کی سی ہے، اُسے لکھ کر قید کیا جاسکتا ہے۔ یحییٰ بن معینؒ کا فرمان ہے: جو شخص حدیث طلب کر رہا ہو اُس کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے مُحدِّث اور قلم سے دُوری اختیار نہ کرے۔ (مطالعہ کیوں :۴۴)لہٰذا دورانِ مطالعہ مفید باتوں کو محفوظ کرتے رہنا چاہیے۔
دوسرا طریقہ: چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے، حاصلِ مطالعہ کے استحضار کی عادت ڈالیں ۔
مطالعہ کے دوران حل شدہ عبارت وحواشی پر خط کھینچ لیں بہ شرطے کہ کتاب ذاتی ہو، اور حل نہ ہو نے والے الفاظ پر بقدر ضرورت لکیر کھینچ لیں ۔ خط کشید کا فائدہ یہ ہوگا کہ، جب طالب علم دوبارہ اس کوپڑھے گاتو ان عبارتوں اور سطروں سے بنیادی افکار، اہم تفصیلات،فنی کلمات اور علمی اصطلاحات سمجھے گا۔ اورحل نہ ہونے وا لے الفاظ پر خط کشید سے اپنی کمزوری کی بنیاد معلوم ہوگی۔
فائدہ: کتابوں کے اسباق و مطالعہ کے بعد اُسی دن مراجَعت کرنے میں نہ تو وقت زیادہ صَرف ہوگا، نہ ہی زیادہ محنت لگے گی؛ کیوں کہ ابھی تازہ سبق یا مطالعہ ہوا ہے، آفتِ نسیان اس پر طاری نہیں ہوئی۔ اور اس کی آسان صورت یہ ہے کہ، اس عربی عبارت کو معانی کے استحضار کے ساتھ پڑھ لیں ، اورفنی کتابوں میں کم ازکم تین دن کے اسباق کو پڑھیں ۔ اس طرح مراجعت سے فائدہ یہ ہو گا کہ، اسباق میں ہونے والے مختلف فنی اجزاء کو مربوط کرنے کی قدرت حاصل ہوگی، جس سے فنی استحضار حاصل ہوگا، جس کو ’’فن دانی‘‘ سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
مطالعہ کا ذوق بڑھانے کے لیے کم ازکم دوسا تھیوں کی جوڑی ہو، دونوں ایک متعین مقدار مطالعے کا عہد کریں ، اور بہ وقت فرصت مذاکرہ ومباحثہ کریں ۔
طالب کا کردار، اقوالِ اکابر کی روشنی میں
ضیوفِ اہل اسلام، طلبۂ علومِ دینیہ کے حوصلے کیا ہونے چاہیے؟ ان کا کردار کیسا ہو؟ اور وہ کن صفاتِ حمیدہ سے متصف ہونے چاہیے؟ اس بابت لب کشائی کرنا یا کچھ لکھنا مجھ حقیر کے بِساط سے باہر ہے؛ لیکن اسلاف وبزرگانِ دین کی کچھ امانتیں ایسی ہیں جن کو ادا کرنا امانت کا مقتضیٰ ہے، جو حسبِ ذیل ہیں :