آج کل کے بعض طلبا اِس قانون کی سراسر مخالَفت کرتے ہیں ،مہربانی فرماکر اُن کے کانوں میں یہ بات پہنچا دیجیے۔ فافہَموا وتدَبَّروا واشْکُروا اللّٰہَ فِي کُلِّ حالٍ۔
شرَّاح کا لفظِ ’’اِعلم‘‘ اور مقاصدِ اربعہ
قاعدہ۱۶):جب شراح اعلمکا لفظ کہہ کر کلام پیش کرتے ہیں ، تو اِس سے مندرجۂ ذیل امور میں سے کسی ایک امر کو بیان کرنا مقصود ہو تا ہے۔
[۱]جوابِ سوال مقدر اور دفع دخل مقدر علی سبیل التفصیل(۱)۔
[۲]ہونے والے اعتراض کی تمہید کے لیے جس کا بیان صراحۃً آنے والا ہو، یا جواب کی تمہید کے لیے، جس کی علامت یہ ہے کہ تمہید کے اختتام کے بعد لفظ وَاِذاَ عرفت ھذا یا اذا تَمہَّد ھذا فنقول… یا اِن کے ہم معنیٰ اور مرادف الفاظ ذکر فرمادیتے ہیں (۲)۔
[۳]ماتن پر اعتراض کرنا خواہ اُس کا جواب متحقق ہو یا نہ ہو ، یا غیر ماتن کے قول کو لے کر اُس پر رد کرنا، اور کلامِ مصنف کے نکات کو بیان کرنا، اور اُس کے فوائد پر تنبیہ کرنا۔
[۴]مقامِ مجمل کی تفصیل بیان کرنا، خواہ یہ تفصیل متن میں مذکورہ مسئلے کا خلاصہ بیان کرنے سے ہو، یا کسی اَور ایسے طریقے سے جو طلبا کے افہام کے لیے زیادہ مفید ہو(۳)۔
(۱)یاد رہے لفظ ’’اِعْلَمْ‘‘ سے شارح کی اغراض کیا ہوتی ہیں ؟ اِس کا بیان یہاں پر مذکور ہے؛ ورنہ اِسی لفظِ اعلم کوحضراتِ ماتنین دوسری تین اغراض کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ جس کا بیان ’’متن وشرح میں بغرض مخصوص مستعمل الفاظ‘‘ کے ضمن میں درج ہوچکا ہے۔
(۲) شرح تہذیب میں الکلیاتُ خمسٌ کے ضمن میں ’’فصل‘‘ کی تعریف کرتے ہوئے ماتنؒ نے فرمایا ہے: الفصلُ: وہوَ المقوْلُ علیٰ الشيئِ في جوابِ ’’أيِّ شيئٍ‘‘ ہُو في ذاتِہِ۔ شارح اِس پر وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ: أيُّ شیٔ کے جواب میں فصل ہی کیوں واقع ہوگی؟ اِس بات کو سمجھانے کے لیے شارح بہ طور مقدمہ فرماتے ہیں :
اعلمْ:أن کلمۃَ ’’أيٌّ‘‘ موضوعۃٌ في الأصلِ لیُطلبَ بہا ما یمیِّزُ الشيء عمّا یشارکہ فیما أضیف إلیہ ہٰذہ الکلِمۃُ، مثلاً: إذا أبصرتَ شیئاً من بعیدٍ وتیقَّنْتَ أنہٗ حیَوانٌ؛ لٰکن ترددتَ في أنہ ہلْ ہوَ إنسانٌ أوْ فرَسٌ أوْ غیرہما، تقولُ أيُّ حیَوانٍ ہٰذا؟ فیُجابُ عنہ بما یخصِّصہ ویمیِّزُہ عنْ مشارکاتِہ في الحیوانِ۔ إذا عرفْتَ ہٰذا فنقولُ…۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں : شرح تہذیب:۱۸
(۳)جیسے: م: وَلایَنعقِدُ نکاحُ المُسلمَِینَِ إلا بِحضوْرِ شاھِدینِ حُرَّینِ عَاقلینِ بَالغَینِ مُسلمَینغ