ہیں ، پھر اُن میں سے ہر ایک کی تعریف کرتے ہیں ، اِس کے بعد اگر ہر ایک قسم کے الگ الگ اقسام ہیں تو اُن تمام اقسام کو تعریفات(۱) کے ساتھ بیان کرتے ہیں ، یہاں تک کہ کل اقسام ختم ہو جائیں ؛ پھراُن کے احکام اور قوانین بیان کرتے ہیں یہاں تک کہ کتاب ختم ہوجائے۔
بعض مصنفین ایسے بھی ہیں کہ مذکور ہ بالا چیزوں پر مثالوں کا اضافہ بھی فرماتے ہیں ، اور ہر مسئلہ وقانون کے بعد وضاحت ِ قانون کے لیے مثالوں کو بیان فرما دیا کرتے ہیں ۔
جب کہ بعض مصنفین بیان اقسام کے بعد و جہِ حصر بھی بیان فرمادیتے ہیں ، و ذٰلک احسان منہم جزاہم اللہ خیر الجزاء۔
شرح کی احتیاج اور اس کے دواعی
جاننا چاہیے کہ تصنیف سے مصنف کی غرض یہ ہوتی ہے کہ، میری تصنیف شدہ کتاب
ـ [۸]اخیر میں متفرق ومتنوع مسائل کو بیان کرتے ہیں ، جیسے:
’’کتاب المضاربت‘‘ میں ہے: المُضارَبۃُ مُشتقَّۃٌ مِن الضَّربِ فيْ الاَرضِ((لغوی تعریف))۔ سُمِّيَ بہِ((وجہِ تسمیہ)): لأنَّ المُضاربَ یَستحقُ الربحَ بِسعیِہِ وَعملِہِ ((مناسبت بین المعنی اللغوی والاصطلاحی))۔ وَہيِ مَشروْعۃٌ للحاجَۃِ إِلیْہا، فإنَّ النَّاسَ بَینَ غنيٍ بالمَالِ غَبيٍّ عَن التَّصرُّفِ فیہِ، وَبینَ مُہتَدٍ فيْ التَّصرُّفِ، صِفرِ الیدِ عنہٗ((احتیاج))۔ فَمسَّتِ الحاجۃُ إلَی شَرعِ ہٰذا النَّوعِ مِن التَّصرُّفِ لِینتَظِمَ مَصلَحۃَ الغَبيِّ والذَّکيِّ، وَالفقیرِ وَالغَنيّ۔((دلیل عقلی)) [۱]وَبُعثَ النبيُّا وَالنَّاسُ یبُاشِرونَہٗ فَقرَّرَہمْ [۲]وَتعامَلتْ بہِ الصَّحابَۃُ۔ ((دلیل نقلی))
ش: [۱]ثمّ المَدفوعُ الَی المُضارِبِ أمانۃٌ فيْ یَدہِ، لأنہٗ قبَضہٗ بأمرِ مَالکہِ، لا عَلَی وَجہِ البَدلِ وَالوَثیقَۃِ۔ [۲]وَہوَ وَکیلٌ فیہِ؛ لأنہٗ یَتصرَّفُ فیہِ بأمرِ مالکہِ۔ [۳]وَإذا رَبِح فہوَشَریکٌ فیہِ لِتملُّکہِ جُزئً مِن المَالِ بِعمَلہِ۔ [۴]فإذا فسَدتْ ظھَرتْ الاِجارَۃُ، حَتَّی اِستَوجبَ العاملْ أَجرَ مِثلہِ۔ [۵]وَإِذا خالفَ کانَ غاصِباً لِوجودِ التَّعدِّيْ منہٗ علی مالِ غیرِہ۔ ((اصول))
م: قالَ: المُضَاربۃُ: عقدٌ یَقعُ عَلی الشِّرکۃِ بِمالٍ مِن أَحدِ الجانِبینِ وَالعملِ مِن الجانِبِ الآخرِ۔ (ھدایہ:۳؍۲۵۷)((اِن اصولوں کو ذکر کرنے کے بعد متفرع ومتنوع مسائل کو ذکر کیا گیا ہے))۔
(۱)ہر نوع (قسم) کی تعریف حد ورسم یعنی موضوع ومحمول سے مرکب ہوتی ہے، جیسے: انسان کی تعریف حیوانِ ناطق ہے، اِس میں حیوان موضوع اور ناطق محمول ہے، پھر محمول اگر کلی ذاتی ہے تو وہ تعریف’’حد‘‘کہلاتی ہے، اور اگر محمول کلی عرضی ہے تو وہ تعریف ’’رسم‘‘ کہلاتی ہے۔ اِسی طرح موضوع اگر جنسِ قریب ہے تو اُس کو ’’حدِ تام‘‘ اور ’’رسمِ تام‘‘ کہتے ہیں ، اور اگر موضوع جنسِ بعید یا بعید تر ہے تو اس کو ’’حدِ ناقص‘‘ اور ’’رسمِ ناقص‘‘ کہتے ہیں ۔ (رحمۃ اللہ الواسعۃ ۱؍ ۵۱۸) مرتب