مقامات میں ، [جیسے: قامَ عبدُاللّٰہِ بنُ عمرَ](۱)۔
متعلقاتِ جملہ فعلیہ
ابتداء ً جب کوئی فعل دیکھو:
تو سب سے پہلے صیغہ، وزن اور باب کے بابت غور کر لِیا کرو، اگر وہاں پر کوئی قانونِ صرفی لگتا ہو تو ضرور اُس کا اِجرا کرلو؛ مشترک صیغوں میں سِیاق وسَباق کو دیکھ کر کسی ایک صیغے کی تعیین کرلو، جیسے: (تضرب): تَضْرِبُ، تُضْرَبُ؛(۱) (تضربان): تَضْرِبَانِ، تُضْرَبَانِ؛
(۱)وہ بارہ مقامات جہاں بدل اور عطفِ بیان کے درمیان فرق کیا جاتا ہے: منہا:[۱]أن یمتنعَ الاستغنائُ عن عطف البیانِ دون البدلِ، نحوُ: ہندٌ قامَ زیدٌ أخوہا، فلوجُعل ’’أخوہا‘‘ بدلاً، لَجازَ حذفُہ، فبقیتِ الجملۃُ بلاعائدٍ إلیٰ المبتدئِ۔
[۲] منہا: أن یتبعَ عطفُ البیان المنادی بالمعرفِ باللام، نحوُ: یا زیدُنِ الحارثُ! حیث لو کان ’’الحارثُ‘‘ بدلاً، فقیل: یا الحارثُ! وہٰذا مُمْ۔
[۳]منہا: أن یضافَ اسمُ التفضیلِ إلیٰ عامّ ویتبعُ لقسیمَیہ، نحوُ: زید أفضلُ الناسِ -الرجالِ والنسائِ-، فلایجوزُ ’’زیدٌ أفضلُ النسائِ‘‘ علیٰ تقدیر البدلیۃِ، لأن اسمَ التفضیلِ إذا قُصدَ بہ الزیادۃُ علیٰ من اُضیفَ إلیہِ یُشترطُ أن یکونَ منہُم۔
[۴] منہا: أن یتبعَ صفۃُ ’’أيٍّ‘‘ بمضاف، نحوُ: یا أیُّہا الرجلُ غلامُ زیدٍ، فلایجوز:یا ایُّہا غلامَ زیدٍ۔
[۵] ومنہا: أن یتبعَ مجرورُ کِلا بمُنفصلٍ، نحو: کلا أخَوَیک زیدٍ وعمرٍو عندِي؛ لأنہ علیٰ قِسمَیہ یلزمُ إضافۃُ ’’کلا‘‘ إلیٰ مفردٍ، وہي تُضاف إلیٰ مُثنیّٰ۔
[۵] منہا: العطفُ علیٰ المُنادیٰ بمفرَدٍ مَنصوبٍ، نحوُ: یا اخوتَنا عبدَ شمسٍ و نَوفلاً، فلو قیل مبدلیتہ لقِیل بالضَّمِّ؛ لأنہ لو عُطف علیٰ المُنادیٰ المعرّف باللام وجبَ أن یُعطیٰ حکمُ ما یستحقُّہ لو کان المُنادیٰ۔
[۷] منہا: اتباعُ العَلَم المعرَّفۃِ للمعرَّف باللاَّم المُعرَّفۃِ المضافِ إلیہ بالإضافۃِ اللفظیۃِ، نحو: أنا ابن التارکِ البکريِّ بشرٍ؛ فإنہ علیٰ تقدیرِ البدَلیۃ یلزمُ ’’التارکُ بشرٍ‘‘، وہٰذا مُمْ عند الجمہورِ؛ لإضافۃِ الصفۃِ المُعرَّفۃِ باللام الیٰ العلم۔ [۸]منہا: أن البیانَ لایقعُ ضمیرا ولا تابعَ ضمیرٍ۔
[۹] منہا: أنہ لایقعُ جملۃً ولا تابعاً لہا۔ [۱۰] منہا: أنہ لایقعُ فعلاً ولا تابعاً لَہ۔
[۱۱] منہا: أنہ لیس مَتبوعُہ في حکم الظَّرف۔
[۱۲] منہا: أنہ لایُخالِفُ متبوعَہ في التعریفِ والتنکیرِ۔ مصنف
(۱)اہل عرب کے بعض قبائل سے کچھ افعالِ ماضیہ ہمیشہ مجہول ہی مشہور ہوئے ہیں ، جن میں سے مشہور افعال غ