صِفَۃٌ خَاصَّۃٌ للّٰہِ تَعَالیٰ۔
اِسی بناء پر وہ شراح جن کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے داء التعصب سے محفوظ رکھا ہے حتی المقدور اُس متن کی مدد اور نصرت میں اپنی مکمل ہمت اور طاقت خرچ کردیتے ہیں جس کی شرح کرنے کا التزام فرمالیتے ہیں ، اور اپنی طرف سے کمالِ محنت و مشقت کے ساتھ اُس کے ایضاح کی کوشش و سعی فرماتے ہیں ، اور جو اعتراضات ماتن پر وارد ہو تے ہیں اُن کے اندفاع کی از حد فکر میں رہتے ہیں ؛ تاکہ شارح مُفسِّر کامل کہلائے نہ کہ ناقص وجارح؛ لہٰذا مفسر کو چاہیے کہ وہ غیر معترض ہو۔
شارحین کے مخصوص کلماتِ تعریض وکنایہ
اللہُمَّ اِلاَّ! (ہاں !) جب شارح ایسی چیز پر مطلع ہو جائے کہ جس کا حمل کرنا وجہ صحیح پر ناممکن ہو، تو ایسی مجبور ی کی حالت میں شارح یاتو تعریضاً اُس پر تنبیہ کریں یا صراحتہً، بہ شرطے کہ عدل و انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے مُتَجَنِّبًا عَنِ الغَيِّ وَالاِعْتِسَافِ؛ کیوں کہ شارح پر واجب ہے کہ سلف پر طعن کرنے سے مطلقاً بچے۔
اور مجبوراً اگر کہنا بھی ہو تو مثل: قِیْلَ، ظُنَّ، وُھِمَ، اُعْتُرِضَ، اُجِیْبَ، بَعْضُ الشُّرَّاحِ وَالمُحَشِّي، بَعْضُ الشُّرُوْحِ وَالحَوَاشِي۔ کے مانند کلام لائے، تعیین کر کے بے ادبی سے احتراز کرے، اور اکثر اوقات غلطی کو راسخین سے بچا کر ناسخین کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، اگرچہ یہ بات ناممکن ہے۔ فرمایا کرتے ہیں کہ: بے چارے مصنفین کو اعادہ اور نظر ثانی کرنے کا موقع نہیں مِلاہوگا، لفرط الاھتمام بالمباحثۃ والافادۃ۔ اور بعض مصنفین کی لغزش کا جواب یوں بھی دیا جا تا ہے کہ: ہمیں اِس کا علم نہیں ہے کہ کہیں یہ لکھا ہوا ہو۔
قاعدہ۳۴): کسی مذہب کو بیان کرنے کے بعد اُس مذہب کی دلیل بیان کرنے کے لیے شراح کا قول: بِنَائً عَلیٰ…، یا ھٰذَا القَوْلُ مَبْنِيٌ عَلیٰ…، اُس قاعدے کو بیان کرنے کے لیے ہوتا ہے جس پر مسئلے کا مدار ہے(۱)۔
(۱)جیسے :ویقتدي المتوضئ بالمتیمم، والغاسل بالماسح، والقائم بالقاعد۔ ش:بنائً علی فعل الرسولا؛ (فإنہ صلی قاعدا في مرض موتہ والقوم قیامٌ۔ أخرجہ البخاری(حاشیۂ شرح وقایہ)