الکِلمَۃُ لَفظٌ وُضِعَ لِمَعْنیٰ مُفْرَدٍ]۔
فائدہ: اِن الفاظ کے مبنی رکھنے کی صورت میں یہ الفاظ اُن مبنیات کے قبیل سے ہوں گے جو واقع میں غیر مرکب کے قبیل سے ہیں ۔
٭ہاں اگر وہ الفاظ ’’معرفہ‘‘ ہوں تو آپ اُن کو مبتدا بھی بنا سکتے ہیں ، [جیسے: البابُ الأول: في الإسمِ المعربِ]۔
قاعدہ۲): مذکورہ بالا عناوین کے عِلاوہ کوئی اَور عنوان ’’معرفہ‘‘ ہو تو اُس کو مبتدا یا خبر بناتے وقت کبھی حسبِ اقتضائے مقام مضاف کو حذف کر لیتے ہیں ، جیسے: کافیہ میں ہے: المرفوعاتُ: أي ہٰذا، بحثُ المرفوعاتِ۔
قاعدہ۳):اگر عنوان موصوف ہو جس کی صفت: الأوَّلُ، الثانِي، الثَّالِثُ وغیرہ ہو تو اِس کی خبر اکثر بعد میں مذکور ہوتی ہے، [جیسے: البابُ الثاني: في الإسمِ المبني]۔
ابتدائِ کلام میں واقع ہونے والے اسماء
قاعدہ۱):وہ اسم جو آپ کو ابتدائے کلام میں نظر آیا ہے، اگر وہ ضمیر منصوب منفصل
ـ (۱۲)مبتدا کا حذف، جیسے: {إذَا أَرَادَ شَیْئاً أَنْ یَقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ} اِس کی اصل{فَہُوَ یَکُوْنُ}ہے۔
(۱۳)خبر کاحذف، جیسے: {وَالَّذِیْنَ أَسَرُّوْا النَّجْویٰ مِنْکُمْ} اِس کی اصل {وَالَّذِیْنَ أَسَرُّوْا النَّجْویٰ مِنْکُمْ ظَالِمُوْنَ}ہے،(یہ مثال باب الاخبار بالذي کے قبیل سے ہے)۔
(۱۴)جزاء کا حذف، جیسے: {إذَا قِیْلَ لَہُمُ اتَّقُوْا مَا بَیْنَ أَیْدِیْکُمْ وَمَا خَلْفَکُمْ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ} اِس کی اصل {إِذَا قِیْلَ لَہُمُ اتَّقُوْا مَا بَیْنَ أَیْدِیْکُمْ وَمَا خَلْفَکُم، أَعْرَضُوْا}ہے۔
(۱۵)جملہ کے بعض حصہ کا حذف، جیسے: {تَأْتُوْنَنَا عَنْ الیَمِیْنِ}اِس کی اصل {تَأْتُوْنَنَا عَنْ الیَمِیْنِ وَعَنْ الشِّمَالِ}ہے۔
(۱۶)’’لا‘‘ نافیہ کا حذف، جیسے: {إنِّيْ أعِظُکَ أنْ تَکُوْنَ مِنْ الجَاہِلِیْنَ}اِس کی اصل {أنْ لاَتَکُوْنَ} ہے۔ (جلالین، آسان اصولِ تفسیر)
ملاحظہ: یاد رہے کہ قرآن کریم میں حروفِ مشبہ بالفعل کے اسماء کا، افعالِ ناقصہ کے اسماء کا اور أنْ مصدریہ پر حرفِ جر کا حذف کرنا شائع اور ذائع ہے؛ اِسی طریقے سے إذْ ظرفیہ کامتعلَّق عام طور پر محذوف رہتا ہے، اور کبھی کبھی لوْ شرطیہ کی جزاء حذف کر دی جاتی ہے۔ ایسی جگہ ادنیٰ تأمل اور غورو فکر سے صحیح مفہوم ومطلب سمجھ میں آسکتا ہے۔ (آسان اصولِ تفسیر)