قانون۳-:مقامِ تقسیم میں مبتدا[موضوع] کی اَخبار[محمولات] کو ذکر کرنے کے موقع پر کلمۂ اَوْ کو ذکر کرنا، یہ اُس مبتدا کی تقسیم کرنے کی طرف اشارہ ہوتا ہے، جیسے: الکلمۃُ: اسمٌ أَوْ فِعْلٌ أَوْ حَرْفٌ۔ ایسے مقامِ تقسیم پر لفظِ واؤ اور إمَّا بھی بہ معنیٰ اَوْ مستعمل ہوتے ہیں (۱)۔
فائدہ: مقامِ تقسیم میں لفظِ اَوْ برائے شک نہیں ہے؛ بلکہ برائے تنویع مستعمل ہے۔
قانون۴-: ہر قضیہ شرطیہ منفصلہ، غیرِ مانعۃُ الجمع کو مقسم کی تقسیم کے واسطے ذکر کیا جاتا ہے، جیسے: العَدَدُ: إِمَّا زَوْجٌ، وَإِمَّا فَرْدٌ(۲)۔
ماتن کا لفظِ ’’إعْلمْ‘‘اور اغراضِ ثلاثہ
قانون۵-: لفظِ اِعْلَمْ سے ماتن کی غرَض امورِ ثلاثہ میں سے کوئی ایک ہوتی ہے:
۱) دیباچہ اور خطبے سے فراغت پا نے کے بعد یہ لفظ اَمَّا بَعْدُ کے قائم مقام ہوتا ہے، جس سے مقصودِاصلی کی طرف توجہ دِلانا مقصود ہوتا ہے۔ یہی غرض بعض شراح کی بھی ہو تی ہے بہ شرطے کہ:
اس کے بعد شارح کوئی ایسا صیغہ نہ استعمال کریں جس کا فاعل مصنف ہو اور اس
ـکی خبر ((مصطلح فنی)) ہے۔ اور حضرت مصنفؒؒ نے مقسم یعنی لفظِ موضوع کے اقسام کو ذکر کرنے کے ساتھ اِن اقسام کی تعریفات بھی ذکر کی ہیں ؛ چناں چہ اِس قضیہ شرطیہ کی شرط ((إنْ قُصدَ بجزئِ ہ الدلالۃُ علَی جزئِ مَعناہٗ)) تالی میں مذکور ((مُرَکَّبٌ)) کی تعریف ہے۔ (منطقی ترکیبات کی تفصیل کے لیے حاشیۂ تحفۂ شاہجہانی ملاحظہ فرمائیں )۔
دوسری مثال، جیسے: العِلمُ إِنْ کانَ إِذْعاناً لِلنِّسبَۃِ، فَـ(ہو)تَصْدِیْقٌ؛ وَإلاَّ فَتَصَوُّرٌ۔ (شرح تہذیب ص:۶)
(فائدہ)قضیہ شرطیہ نیز قضایا کی اہم تعریفات ’’دستور الطلباء‘‘ میں درج ہیں ۔مرتب
(۱) جیسے: وھي ((الکلمۃ))إمّااسم، وإمّافعل، وإمّاحرف۔(شرح ابن عقیل :۱۹)
(۲) جیسے: والموضوع: إن قصد بجزء ہ الدلالۃ علی جزء معناہ، فـ’’مرکب‘‘ ((مقسم)): (۱)إما تام، خبر أو انشا؛ (۲)وإما ناقص، تقییدي أو غیر تقییدي، (أي المرکبُ: إما تام، وإما ناقص) یہ قضیہ شرطیہ منفصلہ غیرِ مانعت الجمع ہے۔
فائدہ: مصنف کی ذکر کردہ مثال قضیہ منفصلہ حقیقیہ کی ہے، جس میں در حقیقت مانعت الجمع ومانعت الخلو کا مفہوم ہوتا ہے؛ کیوں کہ حقیقیہ میں جمع ہونا بھی ممتنع ہوتا ہے اور خالی ہونا بھی۔