کبھی ’’ما‘‘ موصوفہ اور کبھی تامہ بہ معنیٰ الشَّيْئُ ہو تا ہے، جس کی تعیین قرینۂ مقام سے ہو تی ہے، [جیسے: مررت بمامعجبٍ لکَ، نِعِمَّا ہِيَ، أيْ نِعْمَ الشَّيئُ ہِيَ]۔
[۲] ’’مَا‘‘ حرفیہ اگر حروفِ مشبہ با لفعل پرداخل ہوتو اس کو ’’مَاکافہ‘‘ سے تعبیر کیا جا تا ہے، جو حروف مشبہ با لفعل کو عمل سے روکتا ہے، [جیسے: إنما الٰہُکم إلٰہٌ واحدٌ]۔
اگر ’’مَا‘‘ اسمیہ پر داخل ہو تووہ مَامشابہ بلیس ہے، [جیسے: ما ہٰذا بشرا]۔
اگر ’’مَا‘‘ فعل پر داخل ہو تو وہ محض نافیہ ہے، [جیسے: ما رمیت إذ رمیتَ]۔ اور ایک ’’مَا‘‘بہ معنیٰ ’’مادَامَ‘‘ہوتا ہے، [جیسے: أقوم ما جلس الامیرُ] جس کی پہچان کا مدار عقل پر ہے(۱)۔فا فہم و تدبر
قانون۳-: أَيٌّ، أَیّۃٌ: یہ دونوں ’’من‘‘ کی طرح شرطیہ، موصولہ اور استفہامیہ ہوتے ہیں ،[جیسے: أیّا ما تدعوا فلہ الأسماء الحسنَی،لا تدرون أیّکم أقرب لکم نفعاً، فبأي حدیث بعدہ یؤمنون]۔
قانون۴-: متیٰ، أَنّٰی؛ جب دو فعلو ں پر داخل ہوں تو شرطیہ ہوں گے، [جیسے: متی تذھب أذھبْ، أنّی تکن أکنْ]، اور اگر یہ دونوں اسم پر یا ایک ہی جملے پر داخل ہوں تو استفہامیہ ہوں گے،[جیسے: متی تذہبُ، أنیٰ لک ہذا]۔
قانون۵-: ’’إذا‘‘ جب پہلے جملہ فعلیہ، اور دوسرے جملہ اسمیہ کے درمیان میں واقع ہو تو وہ إِذَا برائے مفاجاۃہوگا، [جیسے: خرجت، فإذا السبع واقف]،اگر برائے مفاجات نہ ہو تو وہ إذاظرفیہ شرط کے معنیٰ کو متضمن ہوگا، [جیسے: إذا جاء نصر اللّٰہ]۔
الغرض! اَور بھی بہت سے ایسے کلمات ہیں جو بہت سارے معانی میں مشترک ہیں جن کے آپس میں علامات کے ذریعے امتیازہوتا ہے، اِس جگہ بہ طورِ نمونہ چند کلمات تحریرکیے گیے ہیں ، عقل مند آدمی خود محنت کرکے اِس میں مہارتِ تامہ پیدا کرسکتا ہے۔ (العاقل تکفیہ الاشارۃ)
(۱)ما بہ معنیٰ مادام میں ’’ما‘‘ مصدریہ ہے، جو اپنے مابعد فعل کو مصدر کے معنیٰ میں کردیتا ہے، جس سے پہلے مدت، وقت یا ظرف وغیرہ محذوف ہوتا ہے، جیسے: أقومُ ما جلسَ الامیرُ،أي أقوم مدۃ جلوسِ الأمیر۔