مطالعۂ کتب کے بنیادی اصول
کتابوں کا مطالعہ کرنے کے لیے چار اُمور لابُدّی ہیں :
اول: مطالعے میں سب سے اہم: سمجھ اور عقل سے کام لینا ہے۔
ثانی:ابتدائی درجات ہی سے ’’علمِ صَرف‘‘ کے ابواب اور قوانین اچھی طرح ضبط کر لیں ، جن کی رعایت کرتے ہوئے صیغہ معلوم کرنے میں چندا ں دِقت نہ ہو، اور اُس میں خطا سے بچ سکے(۱)۔
فنی ابتدائی کتابوں کی اہمیت اکابر کی نظر میں
ثالث: نحو کے قوانین بھی اچھی طرح ضبط کرلیں ؛ کیوں کہ بعض مبتدی طلبہ اَیسے ہو تے ہیں جو اِس خَیالِ خام میں مبتلا رہتے ہیں کہ، بڑی کتابوں میں خود لِیاقت پَیدا ہوجائے گی، یہاں -ابتدائی درجات میں - ضَبط کی کیا ضرورت ہے؟
اب جب کہ بڑی کتا بیں پڑھنا شروع کرتے ہیں تو پھر کہتے ہیں کہ: وہ تو چھوٹی کتابوں کے مسئلے ہیں ۔ الغرض! نیچے کی کتابوں کو بہ نظر حَقارت دیکھتے ہیں ؛ حالاں کہ ان ہی چھوٹی کتابوں کے مضامین کو یاد کرنا، اَور اُن کو برابر یاد رکھنا ہی بڑی کتابوں کے سمجھنے کا مَوقوف علیہ ہے۔ (وَلٰکِنَّ النَّاسَ عَنْہَا غَافِلُوْنَ)!!!
نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایامِ تعلیمی سے فراغت کے باوجود اپنے پڑھے ہو ئے علم سے نفع مند نہیں ہوتے۔
میرے استاذ حضرت علاّمہ، فہامہ، عمی، سیدی، سَندی، ماہرِفنونِ عقلیہ و نقلیہ، فاضلِ بے نظیر، سید خواجہ صوفی، الحاج، الحافظ، مفسر القرآن مولانا المولوی محمد شاہ صاحب -لاَ زَالَتْ شُمُوسُ بَرَکَاتِہِ، وَفُیُوْضِہٖ وَجُوْدِہِ وَکَرَمِہِ عَلَیْنَا- ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ: میرے استاذ
(۱)یاد رہے کہ ہر فعل کی صَرفِ کبیر، صَرفِ صغیر ہی کی پیدا وار ہے؛ لہٰذا کسی صیغے کو معلوم کرنے کے لیے اولاً اُس فعل کی مکمل صَرفِ صغیر کرو، پھر مذکورہ فعل(ماضی ہو یا مضارع)اور اسم (اسم ہو یااور کوئی) کی صرفِ کبیر کرنے سے مذکورہ کلمہ بہ آسانی مل سکتا ہے۔