افسوس سے بچاتا رہتا ہے، سچ ہے یہ فرمان نبوی: نِعمتَانِ مَغبونٌ فیھمَا کثیرٌمن النّاسِ: الصِّحۃُ والفراغُ۔(مشکاۃ شریف)،دو نعمتیں ایسی ہیں جس میں اکثر لوگ دھوکہ میں ہیں : صحت اور فراغت؛ لہٰذا اگر ہم کچھ بننا چاہتے ہیں تو یاد رہے! وقت خام مسالے کے مانند ہے، جس سے آپ جو کچھ چاہیں بناسکتے ہیں ، گذشتہ زمانے کے متعلِّق افسوس اور حسرت نہیں کرنی چاہیے، کہ بے سود ہے؛ آئندہ زمانے کے خواب نہیں دیکھناچاہیے، کہ یہ موہوم ہے؛ بلکہ حال کی اُس کے آنے سے پہلے قدر کرنا چاہیے، اور حال کو قابو میں کرنے کے دو بڑے اصول ہیں : نظام الاوقات اور اِحتساب۔
نظام الاوقات
نظام الاوقات: شب وروزکے اوقات کے لیے ایک نظام متعیَّن کرنا، آنے والے وقت کے لیے ایک مخصوص کاپروگرام بنانا اور زندگی کے تمام اوقات کے لیے کاموں کی ترتیب اور تشکیل کے عمل کو’’نظام الاوقات‘‘ کہا جاتا ہے۔ تاریخ میں جتنی علمی شخصیات گزری ہیں ، جنھوں نے عظیم تصنیفی کارنامے انجام دیے ہیں ، اُن کی پابندیٔ نظام الاوقات ضرب المثل ہے، اوریہی اُن کے کارناموں کا بنیادی راز ہے، مشہورامام خلیل نحوی کا قول ہے: اَثقلُ الساعاتِ عَلیّ ساعۃٌٌ آکلُ فیھَا۔
ماہرینِ تربیت کا کہنا ہے: اِجعلْ لکلِّ لَحظۃٍ منْ یومکَ عَملا مُعیَّناً، وَلکلِّ عملٍ منْ اَعمالِکَ وَقتاً خَاصّاً۔
وقت کے صحیح استعمال سے ایک وحشی مہذَّب اور ایک مہذَّب، فرشتہ سیرت بن سکتا ہے۔ اِس کی برکت سے جاہل، عالم؛ مفلس، تونگر؛ نادان، دانا بنتے ہیں ۔ وقت ایک ایسی دولت ہے جوشاہ وگدا، امیروغریب، طاقت ور اور کمزور؛ سب کو یکساں ملتی ہے۔
احتساب
احتساب: شب کوبستر پر لیٹنے سے پہلے محاسبہ کرے کہ کیا کھویا اور کیا پایا؟ کتنا فائدہ ہوا اور کتنانقصان؟ اس کو پرکھنے کی کسوٹی ’’احتساب‘‘ کاعمل ہے، چاہے وہ انفرادی سطح پر ہو یا