بھی ہو(۱)؛ کیوں کہ آقا ہی ’’مبدئِ فیّاض‘‘ سے ہم تک اِن علوم کے فیضان کا واسطہ ہیں ، بنا بریں سَلَفِ صالحین کا یہ طریقہ چلا آرہا ہے کہ، ابتدائے علم وکتاب میں آقا پر تحفۂ صلاۃ وسلام پیش کرتے ہیں ، اِس کی وجہ مصنفِ رشیدیہ اِس طرح اِرقام فرماتے ہیں : لَمَّا کَانَ النَّبِيُّا وَسِیْلَۃً لِوُصُوْلِ حُکْمِہِ إِلَیْنِا، وَأَصْحَابُہٗ مُرْشِدِیْنَ لَنَا، أَرْدَفَ التَّحْمِیْدَ بِالصَّلاَۃِ۔ ]
بوقت ابتدائے کتاب اسالیبِِ مصنفین
کتاب کی ابتدا کرنے میں حضراتِ مصنفین کے اسالیب جدا گانہ ہیں :
۱- بعض مصنفین -رَحمَہُمُ اللّٰہُ تَعالیٰ- ایسے گزرے ہیں کہ جنھو ں نے صرف بِسْمِ اللّٰہ
ـ کُلُّ أَمْرٍ ذِيْ بَالٍ لَا یُبْدَأْ فِیْہِ بِحَمْدِ اللّٰہِ، فَہُوَ أَجْذَمُ۔رواہ ابو داؤد والنسائي، وفي ابن ماجہ:فہو أقطع، وقال الخطیب:ہٰذا حدیثٌ صحیح۔
(۱)تصلیہ: محسنِ حقیقی جل مجدہ کی حمد وثنا کے بعد اُس مقدس ہستی جنابِ محمد رسول اللہ ا پر صلاۃ وسلام بھیجنا ’’تصلیہ‘‘ کہلاتا ہے۔
صلاۃ کے اصل معنیٰ ہے:غایتِ انعطاف، یعنی انتہائی درجے کا میلان ۔ اللہ کا نبی اکی طرف یا مؤمنین کی طرف میلان کرنا، یعنی اللہ کارحمت ومہربانی کرنا ہے۔ یہی معنیٰ اللہ کے شایانِ شان ہیں ۔ ارشاد ہے: {إنَّ اللّٰہَ وَمَلٰئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّ، یَأَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْماً}اور ارشاد ہے: {ہُوَ الَّذِيْ یُصَلِّيْ عَلَیْکُمْ}۔
جب صلاۃ کا تعلُّق فرشتوں کے ساتھ ہوتا ہے تو اُس کے معنیٰ استغفار کے ہوتے ہیں ۔ ارشادِ پاک ہے: {وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا} یعنی فرشتے مؤمنین کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں ، یہی اُن کی مؤمنین پر صلاۃ ہے۔
اور جب صلاۃ کا تعلق مؤمنین کے ساتھ ہوتا ہے تو اُس کے معنیٰ دعا کے ہوتے ہیں ۔ ارشادِ پاک ہے: {یَأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْاصَلُّوْا عَلَیْہِ} یعنی اے مسلمانو! آنحضرت ا کے لیے دعا کرو۔
گویا صلاۃ کا حکم باری تعالیٰ کا ہے، نیز بات در اصل یہ ہے کہ تصنیف ہو یا کوئی اَور کمال؛ سب اُس مبدئِ فیاض،عزیز العلام کے فیضان کا نتیجہ ہے ،اگر انسان کو اُس سے اکتسابِ فیض نہ ہوتا تو یہ ظلوم وجَہول کے سِوا کچھ نہ ہوتا۔ گویا سارے ہی علمی کارنامے اکتسابِ فیضِ حق تعالیٰ پر مبنی ہیں ؛ لیکن عام انسانوں کو اِتنی بڑی ذات سے اکتسابِ فیض کا کوئی موقع نہ تھا؛ کیوں کہ وہ انتہائی تلوّث اور آلودگی میں ہیں ، اور وہ بارگاہ ہر طرح مقدس ومنزہ ہے، دونوں میں کوئی مناسَبت نہیں ۔ع چہ نسبتِ خاک را با عالمِ پاک۔ حالاں کہ فیضان کرنے والے اور فیض حاصل کرنے والے کے درمیان ایک گونہ مناسَبت کا ہونا ضروری ہے؛ اِس لیے ایک ایسے واسطے کی ضرورت تھی جس کو دونوں عالموں (عالمِ لا ہوت وعالَم ناسوت) سے مناسَبت وتعلُّق ہو، اور وہی واسطہ آقائے مدنی ا ہیں ، کہ آپ بہ وجہِ بشریت عالمِ ناسوت سے تعلق رکھتے ہیں اور بہ وجہِ روحانی تقدس عالم لاہوت سے مناسَبت رکھتے ہیں ، پس آپ ہی ہیں جو مبدئِ فیاض سے علوم حاصل کرکے عام انسانوں میں تقسیم کرتے ہیں ۔ (إنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَخَازِنٌ وَاللّٰہُ یُعْطِيْ[بخاری]، إنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّماً)۔ (مرتب)