فقیہ، محدث، مفسر مولانا سیف الرحمٰن صاحب نے اپنے بچے کو صَرف کی کتاب پڑھانی شروع کرائی، جب سبق سنتے تھے تو بہت خوش ہوتے تھے اور فرماتے تھے کہ:’’اے طلبا کی جماعت! تم یہ سمجھتے ہوں کہ میرا لڑکا صَرف پڑھتا ہے، مَیں تو یہ سمجھتا ہوں کہ وہ بخاری شریف پڑھ رہا ہے‘‘۔
الغرض! چھوٹی کتابوں سے لا پروائی بہت مُضر ہے، جب تک بنیاد پختہ نہ ہوگی محل کا قائم رہنا محال ہے۔
خِشت اول چوں نِہَد معمار کج تا ثُریا می روَد دیوار کج
لغت دیکھنے کا طریقہ
رابع: مطالعہ کرتے وقت لغت کی کسی معتبر لغت کورکھنا نہایت ضروری ہے، کہ بہ وقتِ ضرورت الفاظ مُشکلہ کا ترجَمہ دیکھ کر بہ آسانی مطلب تک رَسائی ہوسکے۔
جس لفظ کو ایک دفعہ دیکھ لیں اُس کو خوب ذہن میں جمالیں ، کہ باربار لغت کی کتاب کا محتاج نہ ہو، جس میں حسبِ ذیل امور کا لِحاظ رکھیں (۱)۔
(۱) لغات دیکھنے کا طریقہ
جو حروف کلمے کے تمام تغیرات میں قائم رہتے ہیں وہ اصلی ہیں ؛ ورنہ زائد، مثلاً: ضَرَبَ، یَضْرِبُ، اِضْرِبْ، ضَارِبٌ، میں ’’ض، ر، ب‘‘ حروف اصلی ہیں اور باقی حروف زائد۔
فعل اور اسمائے مشتقہ ہوتو مجرد ومزید فیہ کے ابواب کی شناخت کے واسطے ماضی کا صیغۂ واحد مذکر غائب خاص ہے، اِس سے حروفِ اصلیہ کا اندازہ لگالو، اور لغت میں تلاش کرو۔
یاد رہے کہ، لغت میں عام طور پر پہلے افعالِ ثلاثی مجرد، پھر ثلاثی مزید فیہ، رباعی مجرد ومزید فیہ اور اخیر میں اسمائے مشتقہ واسمائے جامدہ بیان ہوتے ہیں ، اور مصادر کو فعل کے ساتھ ہی بیان کرلیا کرتے ہیں ۔
(۱)اگر ہمیں کسی حرف کی تلاش مقصود ہے تو اُس کے حروف اصلی نکالنے کی ضرورت نہیں ۔
(۲)اگر ہمیں کسی اسم کی تلاش ہے تو اس کے جامد ہونے کی صورت میں اُس لفظ کی جمع قلت،کثرت، اسمِ جنس اور اسمِ جمع کی تعیین کرو، اور مشتق ہونے کی صورت میں اُسی کے وزن پر ’’ف، ع، ل‘‘ سے اس کی میزان قائم کرو؛ لیکن اُس وقت مصدر، اسمِ فاعل، اسم مفعول، اسمِ تفضیل، صفت مشبہ، مبالغہ، اسم آلہ اور اسمِ ظرف وغیرہ کے اوزان کو ضرور دھیان میں رکھو، مثلاً: داعٍ، جو در اصل داعِوٌ (داعِوُنْ)،بروزن فاعلٌ (فَاعِلُنْ)؛ مَرْمِيٌّ، مَرْمُوْيٌ(مرمویُن)بر وزن مَفْعُوْلٌ(مفعولن)؛ تَلاَقٍ، تَلاقُوٌ (تَلاَقِوُنْ) تَفاعُلٌ (تَفَاعُلُنْ) تھا؛ عَطْشَانُ بر وزن فَعْلاَنُ؛ عَلاَّمَۃٌ بر وزن فَعَّالَۃٌ؛ أَکْبَرُ بر وزن أَفْعَلُ؛ مِرْوَحَۃٌ بر وزنِ مِفْعَلَۃٌ۔ ہاں !اگر اول وہلہ میں وزن نہ نکلے تو یقین کر لوکہ اس میں ضرورغ