(۲)اگر بعینہ پہلے لفظ کو مکرَّر کیا گیا ہے، تو وہ ’’تاکیدِ لفظی‘‘ ہے،[جیسے: جائَ زیدٌ زیدٌ]۔ اور اگرلفظِ کُلٌّ، أَجْمَعُ(۱)، أَکْتَعُ، أَبْتَعُ، أَبْصَعُ، کِلاَ، کِلْتَا، نَفْسٌ،عَیْنٌ میں سے کوئی لفظ ہے تو وہ ’’تاکیدِ معنوی‘‘ ہے، [جیسے: جا.8ئَني زیدٌ نفسُہ]۔
(۳)اگر اِن دونو ں اِسموں کے درمیان حروفِ عاطفہ -وَاو، فَاء، ثُمَّ، حَتّٰی؛ إِمّا، أَوْ، أَمْ؛ لاَ، بَلْ، لٰکِنْ- میں سے کوئی ہے، تو وہ ’’عطف نسَق‘‘(۲) ہے، [جیسے: قامَ زیدٌ وَ عمروٌ]۔
(۴)اگر مذکورہ شکلوں میں سے کوئی بھی شکل نہ ہو تو اب آپ کو اختیار ہے، چاہے ’’بدل‘‘(۳) بناؤ، یا ’’عطف بیان‘‘؛ کیوں کہ اِن کے درمیان فرق کرنا آسان نہیں ؛ مگر ۱۲؍
ـتذکیر وتانیث میں مطابقت کا طریقہ وہی رہے گا جو عدد ومعدود میں تھا، یعنی: بعض میں تمیز موافقِ قیاس اور بعض میں خلافِ قیاس۔
إذا وقعَ العددُ صفۃً بقيَ علیٰ حکمہ منْ حیثُ التذکیرِ والتأنیث، فیُؤنّثُ العددُ إذا کان المنعوتُ مذکّراً، وبالعکسِ: في ظلماتٍ ثلاثٍ، أزْواجاً ثلاثۃً۔ (النحو القرآنی۳۸۷)
(۱)بابِ تاکید میں ’’اجمع‘‘ اور اُس کے اَخوات سے تفضیل کے معنیٰ ختم ہوجانے سے صرف وصفی معنیٰ رہ گیا ہے، گویا یہ کلمات لفظاً اسم تفضیل ہیں اور معنیً صفت؛ لہٰذا اُن کے صیغہائے جمع میں ’’اسمِ تفضیل‘‘ کی رعایت ہوتی ہے، اور صیغہائے مؤنث میں صفتِ مشبہ کی رعایت ہوتی ہے۔
إنّ أجْمَعَ وأخواتِہا لمّا انمحیٰ عنہ معنی التفضیل في باب التوکید وبقیت الصفۃ، فیُراعیٰ جانبُ التفضیل في الجمع(حیث یُجمع بـ’’أجْمَعونَ‘‘)، وجانبُ الصفۃ في المؤنث(حیث یُؤنث بـ’’جَمعَاء‘‘)۔ (ملخص کتاب الکافیۃ:۴۴)
(۲) اگر اِنّ کے اسم پر -بعد ذکرِ خبر- عطف کیا جائے تو معطوف پر دو اعراب پڑھ سکتے ہیں :
[۱]الرفع عطفاً علیٰ المحل [۲]والنصب عطفاً علیٰ اللفظ۔(ابن عقیل۱؍۳۱۵) نحو: إِنَّ زَیداً قَائمٌ وَعَمرواً وَعَمْرٌو۔
(۳) بدلِ کل رابط کا محتاج نہیں ہے، جب کہ بدلِ بعض وبدلِ اشتمال میں رابط (ضمیر ملفوظ یا مقدر) کا ہونا ضروری ہے۔ جیسے: ضُرِبَ زَیدٌ رأسُہٗ، سُلِبَ زَیدٌ ثوبُہٗ۔
بدلُ الکلِّ من الکلّ لایَحتاجُ إلیٰ رابطٍ، وبدلُ البعضِ والإشتمالِ یحتاجانِ إلیٰ رابطٍ وہو الضمیرُ الملفوظُ أوْ المقدّرُ۔
بدل کی ایک قسم ’’بدلِ تفصیل‘‘ بھی ہے۔
یُلحقُ بِبَدلِ الاشتمالِ بدلُ التفصیلِ، وہو ما فصّلَ المجملَ الذي قبلَہ، نحو:أکْرِمْ والدَیکَ: أباکَ وأمَّکَ، لَکَ علیَّ ثلاثۃٌ: فضلُ التربیۃِ، فضلُ التعلیمِ، فضلُ التَّدْبیرِ۔ و یجوزُ في بدلِ التفصیلِ الاتّباعُ، الرفعُ بالخبرِ، النصبُ بتقدیرِ(أعنيْ): مررتُ بالرجلینِ: زیدٌٍ زیداً، عمرٌٍ عمراً۔مرتب