۴-اگر وہ اسم، معرب ہے تو دیکھو کہ وہ منصرف ہے یا غیر منصرف؟
۵-اگر مبنی ہے تو ضمیر، اسم اشارہ، اسمِ مَوصول، اسم فعل، اسم صَوت، ظرف، مرکب بِنائی اور کنایہ میں سے کیا ہے؟
۶-معرفہ ہے یا نکرہ(۱)؟[اگر معرفہ ہے تو معرفہ کی سات قسموں میں سے کونسی قسم ہے؟]۔
۷-مذکر ہے، یا مؤنث؟[اگر مؤنث ہے تو علامتِ تأنیث ہے یا نہیں ؟]۔
۸-مفرد ہے، مثنیٰ ہے، یا مجموع؟
۹-مرفوع ہے، یا منصوب ومجرور(۲)؟
ـفي الاسمِ؛ وسَوفَ وتائِ التَّأنیثِ في الفعلِ؛ لأنَّ سَوفَ تَقتضِي المُستقبِل، والتائُ تقتضيْ الماضيَ۔ وإن لمْ یتضادّا جازَ اجتِمَاعُہما، کـ’’الالفِ واللاَّمِ‘‘ و’’التَّصْغیرِ‘‘؛ و’’قدْ وتائُ التَّأنیثِ‘‘۔(الاشباہ والنظائر في النحو ۲؍۶)
اسم، فعل اور حرف کی علامتوں میں سے کوئی بھی دو علامتیں یاتو متفق ہوں گی یا مختلف، اگر وہ دونوں علامتیں مقصد میں متفق ہیں تو وہ دونوں جمع نہیں ہوں گی، مثلا ’’الف لام‘‘ اور ’’اضافت‘‘، کہ یہ دونوں معرفہ بنانے میں متفق ہیں ، اورجیسے فعل کی علامتوں میں سے ’’سین اورسوف‘‘، کہ یہ دونوں فعل کو مستقبل کے ساتھ خاص کردینے میں متفق ہیں ۔
اور اگر وہ دونوں علامتیں متفق نہ ہوں ؛ بلکہ مختلف ہوں تو دوحال سے خالی نہیں : یاتو دونوں علامتیں ایک دوسرے کی ضد ہوں گی یانہیں ؟ اگر وہ آپس میں ضد ہیں ، مثلاً اسم کی علامتوں میں ’’تنوین اور اضافت‘‘، کہ وہ دونوں آپس میں ضد ہیں ، (تنوین کلمہ کو نکرہ بناتی ہے، اور اضافت معرفہ بناتی ہے) اور فعل کی علامتوں میں ’’سوف اور تائے تانیث‘‘، کہ یہ دونوں بھی متضاد ہے؛ اِس لیے کہ ’’سوف‘‘ برائے مستقبل ہے اور ’’تاء‘‘ برائے ماضی۔ اور اگر وہ دونوں متضاد نہ ہو تو اُن علامتوں کا اجتماع ممکن ہے، مثلاً اسم میں ’’الف لام اور تصغیر‘‘ کا ہونا، اور فعل میں ’’قد اور تاء‘‘ کا ہونا۔
(۱) کسی کلمہ کو بہ صورتِ نکرہ کیوں لایا جاتا ہے؟
ویُنَکَّرُ الاسمُ لقصدِ الاِفرادِ، اوِ النَّوعِیَۃِ، نحوُ: ویلٌ أہوَنُ منْ وَیْلَینِ، ولِکلِّ دائٍ ٍدوائٌ۔ وللتَّکثیرِ أوالتَّقلِیلِ نحوُ: إِنَّ لہٗ لإبِلاً وَغنَماً، وعِندَہٗ کِسرٌ یَقْتَاتُ بِہا۔ (سفینۃ البلغاء ص:۶۰)
یعنی اسم کو چار مقاصد کے پیش نظر نکرہ لایا جاتاہے: (۱)کلمہ کے مفرد ہونے کو ظاہر کرنے کے لیے، جیسے: ویلٌ أہوَنُ منْ وَیْلَینِ:ایک مصیبت دو مصیبتوں سے آسان ہے۔(۲)نوعیت کو ظاہر کرنے کے لیے، مثلاً: لکل دائٍ دوائٌ: ہر قِسم کی بیماری کے لیے علاج ہے۔ (۳)تکثیر کے لیے،جیسے: إنَّ لہٗ لإبلاً وغنَما:اُس کے پاس بہت سے اونٹ اور بکریاں ہیں ۔ (۴)تقلیل یعنی کمی کو ظاہر کرنے کے لیے، جیسے: وعندہٗ کِسرٌ یقتاتُ بھا: اس کے پاس کچھ ٹکڑے ہیں جن کے ذریعہ وہ خوراک حاصل کرتاہے۔
(۲)یاد رہے کہ، کبھی کسی لفظ پر اُس کا اصلی اعراب نہیں دیا جاتا؛ بلکہ اعرابِ حکائی دیا جاتا ہے۔