اِن کے معلوم کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ: اگر اُس لفظ ِ موضوع میں اسم کی کوئی علامت ہے، تو اُس کو اسم، فعل کی کوئی علامت ہے تو فعل، اور اسم و فعل کی علامات میں سے کوئی بھی علامت نہ ہو تو اُسے حرف کہہ لو(۱)۔
ـ الحکایۃُ: ہيَ إِیرادُ اللَّفْظِ أو التعبیرِ علیٰ حَسَبِ ما وَردَ عن صاحبِہ، سوائٌ کانَ ذلکَ عن طریقِ الکلامِ أمِ الکتابۃِ أم القرائَۃِ فیُحْکیٰ عن لفظِہ، ویکونُ اعرابُہ مَحلاًّ، نحوُ قولِک: مَنْ مُحَمَّداً؟ لمن قال لَکَ: رأیتُ مُحمَّداً۔ (موسوعۃ، ص:۳۵۰)
حکایت: (اعرابِ حکائی) کسی متکلم کے لفظ یا تعبیر کو بعینہٖ بول کر، لکھ کر یاپڑھ کر ادا کرنا، بہ ایں طور کہ اُس لفظ کو متکلم کے الفاظ ہی میں نقل کریں ۔
ملاحظہ: ایسے الفاظ پر اعرابِ محلی آئے گا، نہ کہ لفظی وتقدیری، جیسے: کسی نے تم سے کہا: رأیتُ محمّداً، میں نے محمد کو دیکھا، اِس پر تم نے مُخبر سے پوچھا:من محمداً؟ کون محمد؟۔ دیکھیے! اِس عبارت میں ’’محمد‘‘ بہ وجہِ خبر ہونے کے مرفوع ہے؛ لیکن چونکہ وہ لفظ مخبر کے کلام میں (بہ وجہِ مفعول) منصوب تھا، تو تم نے بھی اُس کومنصوب ہی استعمال کرلیا، اِس کو ’’اعرابِ حکائی‘‘ کہتے ہیں ۔
(۱)مصنف علام نے اِسم کے یہ سوالات بہ طور نمونہ دیے ہیں ؛ ورنہ مبتدیوں کے لیے اسم کے اجراء کی طرح فعل وحرف میں بھی اجراء کرنا ضروری ہے؛ تاکہ مطالعہ کا حق ادا ہو سکے، اور فہمِ عبارت میں مُعِین ہو۔ جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
جب آپ کی نظر سے کوئی کلمہ گزرے تو دیکھو کہ: وہ اسم ہے، یا فعل، یا حرف؟اگر اسم ہے تو اُس کے سوالات حضرت مصنفؒ نے بیان کر دیے ہیں ۔ اتماماً للفائدہ ما بقیہ سوالات کو یہاں بیان کیا گیا ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ’’اجرائِ نحووصرف‘‘۔
مرحلۂ اولیٰ: اگر کسی کلمے کا فعل ہونا سمجھ میں آئے تو غور کروکہ ،اُس میں علامتِ فعل کیا ہے؟ معرب ہے یا مبنی؟ معروف ہے یا مجہول؟ معروف ہے تو لازم ہے یا متعدی؟ اگر متعدی ہے تو متعدی کی چار قسموں میں سے کونسی قسم ہے؟ اگر یہ فعل فعلِ مضارع ہے تو مرفوع، منصوب ومجزوم میں سے کیا ہے؟ افعالِ خاصہ: مدح وذم، اور تعجب میں سے کیا ہے؟ ثلاثی ورباعی؛ مجرد ومزید فیہ میں سے کونسے باب سے ہے؟ ہفت اقسام میں سے کونسی قسم ہے، اور اِس میں کیا تعلیل وتخفیف ہوئی ہے؟ اگر ملحق ہے تو ملحق بہ رباعی مجرد ومزید فیہ کے کونسے باب سے ہے؟ اخیراً اُس فعل کی صَرف صغیر وکبیر کرتے ہوئے صیغہ، بحث وترجَمہ پرغور کرو۔
فائدہ بہ قول حضرت قاری صدیق صاحب باندویؒ:
جن طلبہ کی استعداد نہیں ہے اگر وہ تھوڑی سی محنت پابندی سے کرلے تو جلد ہی اُن کی استعداد بن سکتی ہے۔ روزانہ ایک سطر کسی کو پڑھ کر سنایا کرے، اور ہر ہر لفظ پر صرفی ونحوی اعتبار سے غور کرے کہ ثلاثی ہے یا رباعی؟ کس باب سے ہے؟ ہفت اقسام میں سے کونسی قسم ہے؟ تعلیل ہوئی ہے یا نہیں ؟ پھر نحوی اعتبار سے دیکھیغ