Deobandi Books

انوار المطالع فی ھدایات المطالع

49 - 214
	جو طلبا شروع شروع میں کُتبِ عربیہ کے مطالعے میں قدم رکھنا چاہتے ہیں ، میری مراد  وہ طلبا ہیں جو صَرف میر، نحومیر [وغیرہ] ابتدائی کتابوں سے فارغ ہو چکے ہیں ۔اُن کے لیے مطالعہ کا طریقہ یہ ہے کہ:جو بھی لفظ (۱) اُن کی نظر میں آئے تو حسبِ ذیل امور کو معلوم کریں ۔ 
	۱- یہ لفظ مَوضوع(با معنیٰ) ہے یا مہمل (بے معنیٰ)؟(۲)۔ 
	۲-اگر وہ لفظ، لفظِ موضوع ہے تو یہ معلوم کریں کہ: آیا وہ اسم ہے، فعل ہے یا حرف(۳)؟
	۳-اگر اسم ہے تو یہ بتائیں کہ: معرب ہے یا مبنی(۱)؟
                                              
	(۱) اگر وہ  لفظِ عربی ہے تو اس میں مصنف کی ذکر کردہ تحقیقاتِ نحویہ جاری کریں ؛ ورنہ بعض جگہ کتب عربیہ میں معرَّب اور دَخیل الفاظ بھی موجود ہیں ۔
	(۲)المُہْمَلُ: ہوَ الذيْ لمْ یُوضَع لِمَعنیً، سوائٌ کانَ دالاًّ علیٰ معْنیً اَوْلاَ۔ (دستور العلماء ۳؍۴۵۴)
	مہمل: وہ لفظ ہے جو کسی معنیٰ کے لیے وضع نہ کیا گیا ہو، خواہ (استعمالاً)کسی مراد پر دلالت کرتا ہو یا نہ کرتاہو۔ 
	فائدہ: مہمل تو بے معنیٰ کو کہتے ہیں حالاں کہ یہاں پر مہمل کی تعریف کی گئی ہے جس سے اِس کا موضوع یعنی بامعنیٰ ہونا معلوم ہوتا ہے، اِس کا جواب یہ ہے کہ یہاں پر دو چیزیں ہیں : (۱)مہمل جس سے فنی اصطلاح مراد ہے (۲) مہمل (لفظِ بے معنیٰ) کا مصداق، مثلاً: دیز؛ اول موضوع ہے اور ثانی مہمل ہے۔ گویا لفظ ’’مہمل‘‘ بذاتِ خود مہمل نہیں ؛ کیوں کہ وہ ایک خاص معنیٰ کے لیے موضوع ہے کہ اُس کی وضع ہوئی ہے؛ لیکن لفظِ مہمل کا مصداق (جس لفظ پر مہمل کا اطلاق کیا جاتا ہے)، عدمِ وضع کی بنا پر مہمل ہے، جیسے لفظِ ’’خَیْرٌ‘‘ اپنے تمام مصادیق کی خیریت پر ضروردلالت کرتا ہے؛ لیکن خودخیریت میں نہیں ہے کیوں کہ وہ ’’اَخْیَرُ‘‘ بر وزنِ ’’اَفْعَلُ‘‘ اسمِ تفضیل سے تخفیفاًبدلا ہوا ہے۔
	(۳)کتب عربیہ میں جو کلمہ ہماری نظر میں آئے گا، وہ تین حالتوں سے خالی نہ ہوگا: یا وہ کلمہ اسم ہوگا، یا فعل، یا حرف۔
	الکلامُ کلُّہ ثلاثٌ: اسمٌ، وفعْلٌ، وحرْفٌ۔ وقالَ بعضُہمْ: إِنَّ العِباراتِ بحَسَبِ المُعَبَّرِ والمُعَبَّرِ عنہٗ منَ المَعاني ثلاثٌ: ذاتٌ، وحدثٌ عنْ ذاتٍ، وَوَاسِطۃٌ بینَ الذَّات والحدثِ، یدلُّ علیٰ اثباتِہ لَہا أو نفیِہ عنہا۔ فالذاتُ الاسمُ، والحدثُ الفعلُ، والواسِطۃُ الحرفُ۔ (الاشباہ ۲؍۴)
	یعنی بعض حضرات نے کہا ہے کہ: لفظ کی معنیٰ کے اعتبار سے تین قسمیں ہیں : (۱)وہ لفظ جوذات پر دلالت کرتا ہو (۲)وہ لفظ جوذات کے ساتھ وابستہ کسی کام پر دلالت کرتاہو (۳)وہ لفظ جوذات اور اُس کے کام کے درمیان واسطہہو، یعنی جو کام کو ذات کے لیے ثابت کرنے یاکام کی ذات سے نفی کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہو۔ پس ذات، اسم ہے؛ اور کام، فعل ہے؛ اور وہ واسطہ حرف ہے۔  
	(۱)فائدہ: کیا کسی کلمہ میں ایک سے زائد علامتیں جمع ہو سکتی ہیں ؟ 
	کلُّ خاصَّتَيْ نوعٍ إِما أَنْ یَتفِقَا أَو یختَلِفا: فإن اِتَّفقا اِمتَنَع اجتِماعُہما، کـ’’الالفِ واللاَّمِ، والاضافَۃ‘‘ في الاسمِ؛ و’’السِّینِ وسَوفَ‘‘ في الفعلِ۔ وإِن اختَلفا: فإِنْ تضادَّا لم یَجتمِعا، کـ’’التنوینِ وَالاضافَۃِ‘‘ غ

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 أنْوَارُ المَطَالِعْ 1 1
3 جملہ حقوق بحقِ ناشر محفوظ ہیں 2 2
4 مطالعۂ کتب کے راہ نُما اصول 3 2
5 فہرست مضامین 5 2
6 کلمات توثیق ودعا 15 2
7 تقریظ حضرت الاستاذ مولانا قاری عبدالستار صاحب (استاذ حدیث وقراء ت دارالعلوم وڈالی) 17 2
8 مقدمہ 19 2
9 کام کی نوعیت اور کتاب میں رعایت کردہ اُمور 21 8
10 ایک نظر یہاں بھی 22 8
11 مصنف کا مختصر تعارف 22 8
12 مصنفؒ کی دیگر تصانیف 23 8
13 وقت باری تعالیٰ کا ایک قیمتی تحفہ 24 8
14 نظام الاوقات 25 8
15 احتساب 25 8
16 کیا آپ بھی کچھ بننا چاہتے ہیں ؟ 26 8
17 طالب کا کردار، اقوالِ اکابر کی روشنی میں 28 8
18 عُلما، طلبا اور حُفاظ کی فضیلت 29 8
19 حفظِ متون 39 8
20 ملکۂ تحریر پیدا کرنے کا نسخہ 39 8
21 فوائد ثمینہ 39 8
22 پیش لفظ(از مؤلف) 43 2
24 القِسْمُ الأوّلُ في مُطالَعۃِ المُبتدِئیْنَ 47 1
25 معرب،مبنی 52 24
26 منصرف،غیر منصرف 52 24
27 معرفہ، نکرہ 56 24
28 مذکر، مؤنث 57 24
29 واحد، تثنیہ، جمع 59 24
30 [اعرابِ اسمائے متمکنہ] 61 24
31 عَناوین کے اعراب کی تعیین 63 24
32 ابتدائِ کلام میں واقع ہونے والے اسماء 65 24
33 درمیانی کلام میں واقع ہونے والا اسم اور اس کامابعد 66 24
34 تابع، متبوع کی تعیین 70 24
35 متعلقاتِ جملہ فعلیہ 74 24
36 تعیین اجزائِ جملہ فعلیہ 77 24
37 اجزاء جملہ فعلیہ واسمیہ کی شناخت 80 24
38 دو فعل ایک جگہ جمع ہوں 81 24
39 حروفِ معانی 82 24
40 قوانینِ مُہِمہْ 88 24
41 فوائد مختلفہ مہِمَّہ 90 24
42 کلماتِ ذو وجہین 90 24
43 مطالعۂ کتب کے بنیادی اصول 95 24
44 لغت دیکھنے کا طریقہ 96 24
45 القسمُ الثاني في مُطالعۃِ المتوسطِین 99 1
46 بسملہ و حمدلہ 101 45
47 تصلیہ: (صلاۃ علی النبي) 101 45
48 بوقت ابتدائے کتاب اسالیبِِ مصنفین 102 45
49 متن اور طرزِِ تحریر 106 45
50 شرح کی احتیاج اور اس کے دواعی 107 45
51 بہ وقتِ شرح رعایت کردہ اُمور 112 45
52 وہ امور جن کی بہ وقتِ شرح رعایت کی جاتی ہے 112 45
53 متن وشرح میں بہ غرضِ مخصوص مستعمل الفاظ 125 1
54 ماتن کی متانت 127 53
55 ماتن کا لفظِ ’’إعْلمْ‘‘اور اغراضِ ثلاثہ 130 53
56 شارح کی سخاوت 135 53
57 اسالیبِ شرح 135 53
58 فرائضِ شارحین 136 53
59 الفاظِ دفعِ وہم و اعتراض 138 53
60 مطالعۂ کتبِ عربیہ میں مُعِین ۳۸؍ ضروری قواعد وضوابط 143 53
61 وہ ضمائر جن کے مراجع بظاہر مذکور نہیں ہوتے 145 53
62 وجہِ تسمیہ، وجہِ عدول اور کلمۂ اِنَّمَا 147 53
63 شراح کا دلچسپ انداز استدلال اورکلماتِ جواب ودلیل 149 53
64 شرَّاح کا لفظِ ’’اِعلم‘‘ اور مقاصدِ اربعہ 158 53
65 طریقۂ استدلال اور مخالِفین پر رد 159 53
66 دورانِ شرح غیر کا قول نقل کرنے کی اَغراض 159 53
67 اجوبۂ مختلفہ اور اُن کی حیثیات 170 53
68 لفظِ ’’اَیْ‘‘ کا فلسفہ 174 53
69 فائدۂ نافعہ 182 53
70 شارحین کے مخصوص کلماتِ تعریض وکنایہ 184 53
71 عطف کا معیار، واؤ کی تعیین 188 53
72 خاتمۂ کتاب 193 1
73 مختصراً علم کی فضیلت 195 72
74 علوم وفنون کی اہمیت اور اُن میں آپسی ربط 196 72
75 علم المطالعہ کی اہمیت 197 72
77 ایک سچا طالبِ علم اور اُس کے صفات 198 72
78 آداب طالبِ علم 199 72
79 ایک کامیاب طالبِ علم 201 72
80 طریقۂ مطالعہ 203 72
81 ترقیم کے چند قواعد ورموز 207 72
82 رموز اوقاف 207 72
83 یومیہ محاسبہ 209 72
84 رموزِ عددی وکلماتِ مخففہ 210 72
85 کتاب کی فریاد اپنے حامِلین سے 211 72
86 اہم مآخذ ومراجع 212 72
Flag Counter