معنوی ہے تو علم بیان کی طرف توجُّہ کرو۔یاخود اپنا ذہنی اور دماغی قصور ہے کہ، زیادہ مطالعہ بینی سے دماغ کام نہیں دے رہا، تو ذرا دماغ کو آرام دے دو، پھر دوبارہ مطالعہ شروع کرو۔ پھر بھی سمجھ نہ آئے تو دوبارہ آرام کرلو، پھر دیکھو ان شاء اللہ کسی وقت ضرور مطلب حل ہوجائے گا۔
فائدہ: اگر طالب کو ملکہ حاصل کرنا اور اپنی استعداد بڑھانا مقصود ہے تو [ابتداء ً ] شرح اورحاشیہ کی طرف توجہ نہ کرے۔
امورِ مذکورہ کے بعد امورِ تصوریہ کی طرف توجہ کرلے، کہ آیا اِس پر کوئی اعتراض وارد ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ اگر کوئی امرِ قادح ذِہن میں آگیا تو اُس کے دَفع کی صورت تجویز کرے، پھر دفع کے دفع کی صورت تجویز کرے، عَلیٰ ہَذا القِیَاسِ… یہاں تک کہ ذہن میں تسلی ہوجائے۔ اِس سے فارغ ہو کر امور تصدیقیہ کی طرف متوجہ ہوجائے، عَلیٰ قِیَاسِ مَاعَرَفْتَ فِي الاُمُوْرِ التَّصَوُّرِیَّۃِ۔
اب اِن امور سے فراغت کے بعد شرح کو اٹھا کر دیکھے، اگر وہ سوال و جواب شرح میں مذکور ہے؟ تو یہ دیکھے کہ، میرے ذہن میں جو اِس سوال کا جواب آیا تھا وہ اُس شرح کے جواب کے موافق ہے یا نہیں ؟ اگر موافق ہے تو فبہا ’’والحمد للہ علیٰ ذالک‘‘۔
اگر شرح کا جواب تمہارے جواب کے مغائر ہے؟ تو سوچیے کہ مجھ سے کہاں غلطی ہوئی؟ اگر غلطی نظر نہ آئے تو شرح کے جواب کو دیکھیے، شاید مَیں اِس جواب کا مقصد نہیں سمجھا ہوں ! اگر بڑے غور وخَوض کے بعد بھی آپ کو جواب مخالف ہی نظر آتا ہے، اور اُن کا جواب اچھا نظر نہیں آتا، تو اگر وہ مصنف ایسے ہیں جن پر اعتقاد کرنا واجب ہے تو اپنے زُعم کو ترک کرکے اُن کی بات کو مان لو؛ ورنہ استاذ سے پوچھ لیں ۔
اگر استاذ سے پوچھا پھر بھی تسلی نہ ہوئی، تو استاذکی بات مان لے اور خدا کے حوالے کرلے۔
ـ منہٗ۔(سفینہ مع حاشیہ: ۱۱)
تعقیدِ معنوی: کلام معنیٔ مرادی پر دلالت کرنے میں ظاہر الدلالت نہ ہو، بہ ایں وجہ کہ معنیٔ حقیقی اور معنیٔ مجازی کے درمیان وسائط زیادہ ہوں ، اور معنیٔ مقصود پر دلالت کرنے والا قرینہ بھی خفی اور پوشیدہ ہو۔